اسلام آباد (زور آور نیوز) 190 ملین پاؤنڈز سکینڈل کے حوالے سے نیب تحقیقات کا معاملہ، نیب تحقیقاتی ٹیم چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے تفتیش کے لیے اٹک جیل پہنچ گئی ۔ چیئرمین تحریک انصاف کو 190 ملین پاؤنڈز کیس میں گرفتار کیے جانے کا امکان ہے۔بتایا گیا ہے کہ اگر سائفر کیس میں عمران خان کو خصوصی عدالت سے ضمانت مل جاتی ہے تو پھر ان کی گرفتاری 190 ملین پاؤنڈز سکینڈل میں ڈالی جائے گی۔اس وقت جج ابوالحسنات کی خصوصی عدالت میں سائفر کیس کی سماعت جاری ہے۔ وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے چیرمین پی ٹی آئی نے کوئی ایسا کام نہیں کیا، سائفر ہےکیا؟ بےشک کوڈڈ دستاویز ہوتا جس میں کمیونیکیشن ہوتی۔
جج ابوالحسنات نے ریمارکس دئیے سائفر ہے کیا؟ اس پر ضرور بات کرنی ہے،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر ٹریننگ شدہ افراد کے پاس آتا ہے، عام انسان نہیں پڑھ سکتا۔
جج ابوالحسنات نے کہا کہ وزارتِ خارجہ سائفر کی وصولی کرتاہے، سائفر آیا اور کہاں گیا؟ سائفرکیس یہ ہے۔ سائفر کے 4 نقول آتے جن میں آرمی چیف، وزیراعظم شامل ہوتے۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج کسی کلبھوشن یادیو یا ابھینندن کا کیس نہیں سنا جارہا، سایفرکیس بہت خطرناک کیس بنایاگیاہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ1923 تو لگتاہی نہیں ہے۔ چیرمین پی ٹی آئی کوئی جاسوس نہیں، سابق وزیراعظم ہیں۔دورانِ ٹرائل معلوم ہوگا کہ سائفر پر بیان سے ملک کو بچایاگیا یا ملک دشمن قوتوں کی سہولت کاری کی۔ جرم دشمن ملک سے حساس معلومات شئیر کرنا ہے، سیکرٹ ایکٹ تو لاگو ہی نہیں ہوتا۔ ایف آئی اے سے تو کوئی امید نہیں، امید صرف عدالت سے ہے۔ جج ابوالحسنات نے کہا کہ دو کیٹیگریز کی لسٹ ہے، بہت اہم بات کرنے لگا ہوں، سیکشن 5، سیکشن 3 کیا لاگو ہوتاہے یا نہیں ؟ سایفرکیس سب اس پر ہے۔اگر جرم ثابت ہوتا تو سیکشن 3 اے لاگو ہوتی ہے۔ سایفر وزارتِ خارجہ سے وزیراعظم کو ملا، لیکن سائفر ہے کہاں؟۔ وزیراعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، آرمی چیف، وزارت خارجہ کا سائفر ڈاکیومنٹ الگ الگ ہے۔ وکیل نے کہا کہ پراسیکیوشن بتائےکہ بیرون ملک کس کو چیرمین پی ٹی آئی کے سائفرپر بیان سے فائدہ ہوا۔ ایف آئی اے نے قانون کو توڑ مڑوڑ کر سائفر کیس بنایا جو قابل ضمانت ہے۔ سائفر کیس تو بنایاہی بیرون ملک طاقتور کے ساتھ معلومات شئیر کرنے پر ہے، ایسا تو کچھ بھی نہیں۔ سائفر کبھی منظر عام پر نہیں لیا گیا۔ وزیر داخلہ خود کہہ رہے ہیں کہ سائفر دفتر خارجہ میں موجود ہیں۔
Comments are closed.