میان منظور احمد وٹو کا شمار اُن سیاست دانوں میں ہوتا ہے جن کی پہچان محض اقتدار کے ایوانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ جن کی جڑیں عوام میں پیوست تھیں۔ ان کی زندگی کا آغاز ایک سادہ مگر باوقار پس منظر سے ہوا۔ وہ ایک اسکول ٹیچر کے بیٹے تھے جن کے والد تقسیمِ ہند کے بعد بھارتی شہر فیروزپور سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ یہ ہجرت، جدوجہد اور محنت کی داستان میان منظور وٹو کی شخصیت میں بھی جھلکتی رہی۔
میان منظور وٹو نے عملی سیاست کا آغاز کونسلر کے طور پر کیا۔ یہ وہ دور تھا جب سیاست سیڑھی بہ سیڑھی طے کی جاتی تھی اور عوامی خدمت ہی آگے بڑھنے کا راستہ بنتی تھی۔ کونسلر سے لے کر صوبائی اور قومی سیاست تک ان کا سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عوامی مسائل کو نچلی سطح سے سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ عوام میں مقبول اور قابلِ رسائی رہے۔
ان کے سیاسی کیریئر میں کئی اہم سنگِ میل شامل ہیں۔ وہ دو مرتبہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب رہے، پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر فائز ہوئے اور وفاقی وزیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ یہ تمام مناصب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ ایک ہمہ جہت سیاست دان تھے جو نظامِ حکومت کے مختلف پہلوؤں سے واقف تھے۔
میان منظور وٹو کی شخصیت کا ایک نمایاں اور منفرد پہلو ان کی مہمان نوازی تھی۔ وہ اس وصف کے لیے خاص طور پر مشہور تھے کہ مہمانوں کو اپنے ہاتھوں سے کھانا پیش کرتے تھے۔ یہ عمل محض روایت نہیں بلکہ ان کی عاجزی اور خلوص کا اظہار تھا۔ بڑے سے بڑا سیاسی رہنما ہو یا ایک عام کارکن، وٹو صاحب کے دروازے سب کے لیے کھلے رہتے تھے۔
وہ زمین سے جڑے ہوئے، منکسر المزاج اور سادہ طبیعت کے حامل انسان تھے۔ دیہی علاقوں میں ان کی مقبولیت غیر معمولی تھی کیونکہ وہ وہاں کے مسائل، روایات اور مزاج سے بخوبی واقف تھے۔ گاؤں کی بیٹھک ہو یا کسی عام شہری کا گھر، وہ بغیر کسی تکلف کے پہنچ جاتے تھے۔ یہی سادگی اور عوامی انداز انہیں دیگر سیاست دانوں سے ممتاز بناتا تھا۔
میان منظور وٹو کی اصل طاقت عوام کے ساتھ ان کا مضبوط رابطہ تھا۔ روٹ لیول پر کنیکٹیویٹی ان کی سیاست کی بنیاد تھی۔ وہ کارکن کو نام سے جانتے، اس کے مسئلے کو سنتے اور حتی المقدور حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ آج کی سیاست میں جب فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں، وٹو صاحب کا یہ انداز ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔
ان کے انتقال کے ساتھ ہی پاکستانی سیاست ایک ایسے رہنما سے محروم ہو گئی ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں رہتے ہوئے بھی عوام کے دلوں میں بستا تھا۔ وہ نہ صرف ایک کامیاب سیاست دان تھے بلکہ ایک شفیق انسان بھی تھے جن کی یاد ان کی سادگی، مہمان نوازی اور عوام دوستی کے باعث ہمیشہ زندہ رہے گی۔
اللہ تعالیٰ میان منظور احمد وٹو مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے اہلِ خانہ اور چاہنے والوں کو صبرِ جمیل دے۔ آمین۔
Comments are closed.