کوئی ریاست امن کی اہمیت اورضرورت سے انکار نہیں کرسکتی،امن کے بغیر کسی انسان اورانسانیت کاکوئی مستقبل نہیں۔امن کے نوبیل انعام کی آرزوکرنا نہیں بلکہ دنیا بھر میں امن کے قیام اورفروغ کو نوبل کازسمجھ کراس کیلئے اپناکلیدی کرداراداکرنا انسان کوقابل قدربناتاہے۔جنوبی ایشیاء میں پائیدارامن کاقیام اور سیاسی ومعاشی استحکام پاکستان کی ترجیحات میں سرفہرست رہا ہے۔پاکستان اپنے وسائل پسماندگی اورناخواندگی سے نجات کیلئے صرف کرناچاہتا ہے۔ایک دوسرے کاوجود تسلیم  اورایک دوسرے کی تعظیم کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔کشت وخون سے کوئی معاملہ یاتنازعہ سلجھتا نہیں بلکہ مزیدالجھتا ہے۔پاکستان اپنے ہمسایہ اوربرادراسلامی ملکوں افغانستان،ایران کے ساتھ ساتھ چائینہ اوربھارت کے ساتھ بردباری،روادای اور برابری کی بنیادپر دوستانہ اورآبرومندانہ تعلقات کاخواہاں اوراس کیلئے کوشاں رہا ہے۔میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی اس بات سے پوری طرح متفق اوران کے موقف کی تائیدکرتاہوں کہ دہشت گردی روکے بغیر دو ہمسایہ ملکوں یعنی پاکستان اورافغانستان کے مابین تعلقات میں بہتری  کاکوئی امکان نہیں۔ ان کایہ کہنا بھی بجا ہے کہ پاکستان میں پائیدار امن کی ضمانت کابل کو دینا ہو گی۔کالعدم ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے کی طرف سے پاکستان کی سرزمین کسی قسم کی دہشت گردی برداشت نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان اور افغانستان کے حالیہ تنازعہ کی نوعیت یک نکاتی ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی پوری طرح ختم کی جائے۔ دونوں ملکوں کا تنازع نہ تو سرحدی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دوسری وجہ ہے چنانچہ کابل کیلئے اگر وہ چاہے تو اس کشیدگی کو ختم کرنے، بند سرحدوں کو کھلوانے، افغانستان کے ٹریڈرز، کاشتکاروں اور عام عوام کی مشکلات کو ختم کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ مگر کابل کی عبوری حکومت کے تیور بتا رہے ہیں کہ امن کی قدر واہمیت اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور وہ ایک ایسے معاملے کو الجھانے یابگاڑنے پر بضد ہے جس کا نقصان اُس کیلئے دیرپا اور شدید نوعیت کاہوسکتا ہے۔افغانستان کے ساتھ تناؤیاتصادم کبھی بھی پاکستان کی ترجیحات کاحصہ نہیں رہا بلکہ اس معاملے میں پاکستان نے جس مثالی صبر وتحمل اور بیحدبرداشت کا مظاہرہ کیا اور افغانستان کے حالات کے منفی اثرات کاسامناکیا اس کی مثال دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس احساس،جذبہ ایثار اور برداشت کی وجوہات تاریخی اور نظریاتی تھیں لہٰذاء اس کے عوض میں ضروری تھا کہ دوسرا فریق پاکستان کے وقار، مفادات اوراحسانات کا احترام کرتا۔اگر دوسرے فریق کو اس کاقطعی احساس نہیں ہوا تو اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح دو ہمسایہ ملک جن میں مذہبی، تاریخی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہونا چاہیے، فریق ثانی کی ہٹ دھرمی اور اکھڑ پن کی بھینٹ چڑھ گئے۔ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں کوئی بھی ثالث پاکستان کے مطالبات کی صداقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ سرحد پار دہشت گردی کے مصدقہ شواہد موجود ہیں، چنانچہ افغان عبوری حکومت کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ دہشت گردی کے فعال نیٹ ورکس اورپناہ گاہوں اور سرحد پار سے دہشت گردی کے مسلسل واقعات سے چشم پوشی کرنا قطعی طور پر ممکن نہیں۔ اس سلسلہ میں افغان عبوری حکومت کا اقدام ثابت کرے گا کہ وہ دنیا کے ساتھ ڈیل کرنے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔ قطر اور اس کے بعد ترکیہ میں ہونیوالے مذاکرات نے دونوں ہمسایہ ملکوں کیلئے اس مسئلے کو ہمیشہ  کیلئے حل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے مگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغان طالبان نے صرف جنگ بندی کی حد تک امن  کیلئے بھرپور تعاون کیا ہے لیکن اصل تنازعہ اوربحران ہنوزجوں کاتوں برقرار ہے۔ استنبول میں افغانستان کے مندوبین کا منفی رویہ اس امن عمل کی تکمیل میں رکاوٹ بنا لیکن اس معاملے میں پاکستان کی پالیسی خوش آئند اور قومی مفادات سے ہم آہنگ ہے۔
دونوں ملکوں میں پائیدار امن کاقیام درحقیقت دہشت گردی کا سدباب یقینی بنانے سے مشروط ہے۔ پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں پائیدار امن کا خواہاں ہے اور اِس کیلئے اُس کی بھرپور مدد کر سکتا ہے۔ اگست 2021ء میں افغان طالبان کی کابل واپسی کو جس وسعت قلبی سے پاکستان نے قبول کیا، افغان طالبان اس کی قدر وقیمت کا حق ادا نہیں کر سکے اور باگ ڈورہاتھوں میں آنے کے بعد پاکستان کی سکیورٹی کو درپیش خطرات سے بے پروائی کا مظاہرہ کرتے چلے آئے ہیں حالانکہ پاکستان کی مخلصانہ کوشش اور خواہش یہ تھی کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے ساتھ اس کی تعمیر وترقی میں بھرپور حصہ لیا جائے۔ یہ اب بھی ممکن ہے بشرطیکہ افغانستان اپنی ذمہ داریاں پوری کرے، دہشت گردی کو روکے اور ہمسایہ ملک کیخلاف اپنی سرزمین کو استعمال نہ ہونے دے۔بدقسمتی سے یہ توقعات بظاہر پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں، افغان عبوری حکومت کا رویہ دہشت گرد عناصر کی سرپرستی والا ہے، جب تک یہ روش تبدیل نہیں ہوتی اس وقت تک پائیدار امن کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ بہرکیف ریاست پاکستان کی طرف سے نیک نیتی اورسنجیدگی کے ساتھ مصالحتی اورمفاہمتی اقدامات میں اپنا مثبت کردار جاری رکھنا خوش آئند ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان جاری مذاکرات کا آئندہ دور چھ نومبر کو استنبول میں متوقع ہے،دیکھتے ہیں کیا نتیجہ برآمدہوتا ہے۔قیام امن کیلئے پاکستان کی ترجیحات اوراصلاحات میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
									
			
				
Comments are closed.