چیف جسٹس اور وکیل کے درمیاں تلخ کلامی،نہیں سننا چاہتے تو دلائل نہیں دیں گے ،وکیل امتیاز صدیقی

اسلام آباد(زورآور نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہو گئی۔ درخواست گزار عمر صادق کے وکیل عدنان خان روسٹرم پر آگئے۔ وکیل درخواست گزار عدنان خان نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے چیف جسٹس کے آفس کو بیکار کیا گیا ہے، سپریم کورٹ کی انتظامی معاملات میں چیف جسٹس ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتے ہیں، پارلیمنٹ کو ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار حاصل نہیں، آئین سازوں نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے ضابطوں میں رد و بدل کا اختیار نہیں دیا، سپریم کورٹ دو بنیادوں پر کھڑا ہے، ایک چیف جسٹس اور دوسرا باقی ججز،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ایسے تو فل کورٹ بلانے کی کیا ضرورت ہے صرف چیف جسٹس کیس سن لیتا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیے گئے وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دیے گئے۔وکیل عدنان خان نے کہا کہ آئین کہتا ہے چیف جسٹس خود بغیر کسی مشاورت کے بنچز بنا سکتا ہے، چیف جسٹس اور دیگر ججز میں فرق انتظامی اختیارات ہیں، مجھے اس قانون سے مسئلہ نہیں مگر طریقہ کار سے مسئلہ ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ آپ یہ بتائیں کہ اس قانون سے آپکا کونسا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، وکیل عدنان خان نے کہا کہ اس ایکٹ سے انصاف کا حق متاثر ہوگا۔دورانِ سماعت وکیل امتیاز صدیقی اور ججز میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ آپ اس دن چلے گئے تھے جس پر وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ نے کہا تھا اٹارنی جنرل کو پہلے سنیں گے اس کے بعد آپ کو سنیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈر شیٹ دکھائیں۔وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اگر آپ مجھے نہیں سننا چاہتے تو میں دلائل نہیں دوں گا۔لیکن وہ بات مت کریں جو درست نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تمیز سے بات نہیں کر سکتے۔ جس پر وکیل امتیاز نے کہا کہ آپ پہلے اپنے اسلوب کو دیکھئے پھر ہمارے بارے میں بات کریں ۔چیف جسٹس نے عدالتی آرڈر پڑھتے ہوئے کہا کہ بیٹھ جائیں اس سے پہلے کہ کوئی چیز issue کریں۔

 

Comments are closed.