جھلوری میں 10 سالہ آمنہ کا اغوا، پولیس کی غفلت اور بے حسی، پانچ دن بعد لاش برآمد، پولیس اصل مجرم کی گرفتاری میں ناکام

جھلوری میں 10 سالہ آمنہ کا اغوا، پولیس کی غفلت اور بے حسی، پانچ دن بعد لاش برآمد، پولیس اصل مجرم کی گرفتاری میں ناکام

جھلوری (سندھ)

جھلوری کے ایک چھوٹے سے محلے میں 10 سالہ آمنہ کا اغوا ایک دل دہلا دینے والی حقیقت بن چکا ہے جس نے پورے علاقے اور ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ آمنہ، جو کہ ایک غریب امام مسجد کی بیٹی تھی، اسکول جاتے ہوئے اغوا ہو گئی۔ اس کے والد نے پولیس اسٹیشن کے چکر لگائے، لیکن کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ پولیس نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ اس کیس میں سہولت کاری کا کردار بھی ادا کرتی رہی۔

پانچ دن تک آمنہ کے اغواکار اس معصوم بچی کو اذیت دیتے رہے، اور پولیس تفتیش میں ناکامی کا شکار رہی۔ اس دوران بچی کو مسلسل ظلم اور زیادتی کا سامنا رہا، اور پانچ دن بعد اس کی لاش ایک بوری میں بند کر کے ایک سنسان علاقے میں پھینک دی گئی۔ بچی کا بے دردی سے قتل کیا گیا، جس میں نہ صرف اس کے جسم کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا، بلکہ اس کی معصومیت کو بھی چھین لیا گیا۔

اس کے بعد، جب عوام نے احتجاج شروع کیا تو پولیس نے ایک بے گناہ شخص کو گرفتار کر کے عوام کی غم و غصہ کو کم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، پولیس کے یار موسیٰ کے گھر سے بچی کے کپڑے اور جوتے برآمد ہوئے، جس سے ثابت ہوا کہ اصل مجرم وہی تھا جس کے ساتھ پولیس نے گٹھ جوڑ کیا تھا۔ اس کے باوجود، پولیس نے زاہد کو گرفتار کیا، جو کہ بے قصور تھا۔

یہ واقعہ نہ صرف اس علاقے کی پولیس کی غفلت اور بدعنوانی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ پورے ملک کے نظام انصاف کی ناکامی کا بھی مظہر ہے۔ آمنہ کی تکلیف دہ موت نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس واقعے کے بعد عوام کا غصہ بڑھ گیا ہے اور سوالات اٹھنے لگے ہیں: کیا سندھ حکومت اور پولیس عوام کو انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکے گی؟ اگر پولیس اس کیس میں بے بس ہے تو کیا اعلیٰ حکام، جن میں وزیراعظم، وزیر اعلیٰ سندھ اور دیگر حکومتی ادارے، اس پر توجہ دیں گے؟

آمنہ کی معصومیت، اس کے والد کی بے بسی اور اس کی دردناک موت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا واقعی ہمارا نظام انصاف کسی قابل ہے؟ کیا ہم اس معاشرتی بیماری کو ٹھیک کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ یا پھر ہم اپنی خاموشی میں شریک جرم بنے رہیں گے؟

یہ واقعہ ہماری سماجی اقدار، انصاف کے نظام اور حکومتی اداروں کی نااہلی کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ وقت “صبر جمیل” یا “دعاؤں” کا نہیں، بلکہ آمنہ کے لیے آواز اٹھانے کا ہے، تاکہ اس کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

اگر ہم اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، تو ہم سب اس بربریت کے شریک ہوں گے۔ حکومت اور پولیس کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا، اور عوام کو متحد ہو کر اس ظلم کے خلاف لڑنا ہوگا، تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔

Comments are closed.