باعث افتخار
انجنیئر افتخار چودھری
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن نے کیا خوبصورت بات کی ہے کہ ہماری وزارت خارجہ اس عورت کو بھی بہتر سہولہات نہیں دلوا سکی کہ جس کے منہ میں دانت بھی نہیں دوستو ڈاکٹر عافیہ صدیقی رہائی تو بڑی دور کی بات ہے اس کے بارے میں ان کو بہتر سہولیات دینے کا مطالبہ بھی ہم نہیں کر سکتے اور پھر نعرہ ہمارا یہ ہوتا ہے ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم باقی ایران کے ساتھ جو ہماری افواج نے طرز عمل اختیار کیا ہے اس سے ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے داخلی طور پر جو معاملات چل رہے ہیں اللہ کرے اس میں بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ عوام کے ساتھ اچھا سلوک کریں میں نے اندازہ لگایا ہے کہ فوج اور عوام کا تعلق ایسے ہی ہے جیسے دو ناراض بھائیوں کا ہوتا ہے اور کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے مثلا اپ کے بھائی کو کوئی دشمن للکارتا ہے تو اپ کے اندر کی اہمیت جاگ اٹھتی ہے میں سمجھتا ہوں یہ جتنا بڑا گیپ پڑھ چکا ہے یہ صرف چند واقعات کی مار ہے میں سوچ رہا تھا کہ پاکستانی عوام اس قدر اپنی فوج سے دور ہٹ گئے ہیں جس طرح 70 میں بنگالی دور ہو گئے تھے اور کم لوگ ہی فوج کی حمایت کے لیے اگے بڑھے تھے جس میں البدر اور شمس کے کارکن تھے جو ان کی مدد کرتے تھے لیکن اج تو پوری قوم اپنی افواج کے پیچھے کھڑی ہوئی ہے شاہینوں نے بی ایل اے کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تو مجھے شکیل احمد کی خبریں پڑھنے کا انداز یاد ایا کہ ہماری افواج نے دشمن کے اڈوں پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا ہے مجھے ایئر فورس کے ایم ایم عالم یاد اگئے تو میں نے سوچا کہ ان ہوا بازوں کے نام بھی تو ہمارے سامنے انے چاہیے کہ جنہوں نے ایران کو سبق سکھایا اور وہ بھی یاد ائے جو ہمارے دور میں پاکستان پر حملہ کرنے ائے تھے اور الٹی بیل کی مونچھوں والا وہ پائلٹ بھی میرے ذہن میں ایا کہ جسے عوام نے مار مار کے پھر سیکیورٹی فورسز کے حوالے کیا جنرل عاصم صاحب میں اپ کو ایک میسج دینا چاہتا ہوں کہ دیکھ لیجئے انہی لوگوں کے اوپر جو اپ کے دور میں ظلم و ستم ہوا وہ کیسے اپ کی مدد کے لیے سامنے ائے میں ابھی اپنے دوست راجہ منصور کی ویڈیو کلپ دیکھ رہا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم بے شک مظلوم ہیں ہمارے اوپر ظلم ہو رہا ہے لیکن پاک فوج کا ہم ساتھ نہیں چھوڑیں گے دشمن کے خلاف میں ایک واقعہ عموما بیان کرتا ہوں فوج اور پاکستان میں عوام کا تعلق کے حوالے سے 19 70 کے انتخابات میں گجرانوالہ کے شیروں والا باغ میں میں نے جنرل سرفراز کی وہ بات سنی یہ وہی جنرل سرفراز ہیں جو محافظ لاہور بھی کہلاتے تھے لاہور کیا پاکستان اور پوری دنیا کا محافظ اللہ ہے لیکن لیکن انہیں عقیدتا معاف سے لاہور کہا جاتا تھا انہوں نے کہا کہ جب میں اپنے ڈرائیور کے ساتھ واگا بارڈر کی طرف جا رہا تھا تو میں نے راستے میں ایک ایسی خاتون کو دیکھا جو پانی کا چھڑکا ہو کر رہی تھی تو میں نے اپنے ڈرائیور کو حکم دیا کہ گاڑی پیچھے کرو واپسی پر میں نے اس انبار سے پوچھا کہ اماں جی اپ کیا کر رہے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا میرے بیٹے دفائی فنڈ میں میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے اور میں کچھ نہیں کر سکتی تو اپ کے راستے میں جو مٹی اڑ رہی ہے اس کو بٹھا رہی ہوں تاکہ جب اپ کی انکھیں دشمن کی انکھوں میں ڈال کر اس سے مخاطب ہو رہی ہوں تو ان میں مٹی نہ پڑے یاد رہے کہ اس وقت کمانڈر اور صدر پاکستان ایوب خان تھے جو ہمارے لیڈر عمر ایوب کے دادا تھے جنرل عاصم منیر صاحب خدارا یہ فاصلہ بڑھ کر مٹا دے اور اگر نو مئی کو کچھ ایسے واقعات ہوئے بھی ہیں تو ان لوگوں کو رہا کریں عام معافی کا اعلان کریں پاکستان تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے اپ دیکھیں گے کہ اپ کے سپاہیوں کو لوگ اپنے کندھوں پر بٹھائیں گے یہ ایسا ہی ماحول ہوگا کہ نوجوان نسل اپنے بڑوں کو گلے لگتا دیکھ کر خوشی منائیں گے کہ چلیں ہمارا چچا تایا یہ اپس میں مل گئے ہیں مامو اپس میں مل گئے ہیں کیونکہ ان کی دنیا بڑے ہی خراب کرتے ہیں اج کی نوجوان نسل جو عمران خان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور اس کو پورے پاکستان کے سروں میں 70 فیصد لوگوں کا اعتماد حاصل ہے اگر اپ کے ساتھ بھائی چارہ اور صلح ہوتی ہے تو پورے پاکستان میں ایک نعرہ لگے گا کہ پاک فوج زندہ باد عمران خان زندہ باد اگے بڑھیے اس نعرے کی اواز ہمارے کان ترس گئے ہیں ہم اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں ہم انہیں بھی ملک دشمن نہیں کہتے ایک وہ ماحول جو پیار بھرا ماحول ہو اس میں انہیں بھی دیکھنا چاہتے ہیں پاکستان کے لوگ کبھی فوج سے دور نہیں ہو سکتا اپ یقین کریں یا نہ کریں جب پاکستان ٹوٹا تو میں 11 سال کا تھا اس دن جب مکیش کا یہ نغمہ فضاؤں میں بج رہا تھا کہ جوم جھوم کے ناچو اج گاؤں اج گاؤ خوشی کے گیت رے انچ کسی کی ہار ہوئی ہے اج کسی کی جیت رہے تو گزرا والا محلہ باغبان پورہ کا یہ کلنڈرا نوجوان پھوٹ پھوٹ کر رویا اس دن میں نے اپنی بہن کالوں کو ونڈا بھی نہیں ڈالا اور خود بھی روٹی نہیں کھائی ماں مجھے پوچھ رہی تھی کہ کیا ہوا میں نے بھیجی کو کہا کہ اج پاکستان ٹوٹ گیا ہے ٹوٹنے کا مطلب انہیں سمجھانا پڑا کہ پاکستان کیسے ٹوٹا وہ پاکستان جس کو بنانے کے لیے ہمارے پرکھوں نے بڑی ہیں قربانیاں دی ہیں بہت سے مسائل سے انہیں گزرنا پڑا پچھلے دنوں اینگلو عربین کالج میں ایک تقریب میں شرکت کرنے کا موقع ملا وہاں پہ تحریک پاکستان کے کارکن جن کا نام ارشاد تھا انہوں نے کہا کہ ہم پانی وہاں سے پیتے تھے جہاں بڑے جانوروں کے پاؤں کے نشان ہوتے تھے کیونکہ راستے میں تمام کنوں میں سکھوں نے زہر گول دیا تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ یہ اس لیے تھا کہ وہ ٹرینوں میں ا کے لوگوں سے پوچھتے تھے کہ مصلح کون کون ہے اور وہ ان لوگوں کو مارتے تھے کہ وہ جن کے ختنے ہوئے ہوتے تھے یا جو سکھوں کی طرح اشلوک نہیں پڑھتے تھے تو جہاں جہاں جناب عاصم منیر صاحب یہ پیار محبت کی ایک جھلک جو لوگوں میں اپ نے دیکھی ہے اس کو ذہن میں رکھیں اور پاکستانی لوگوں کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیں باقی میں نے ایک بات سنی ہے کہ عمران خان نے کہا کہ فوج ہماری ہے ہم فوج کے کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان جیل سے تنگ ا چکے ہیں وہ اور ان کی بہنیں وہاں روتی ہیں میں قسم خدا کی کہتا ہوں کہ 13 جنوری کو میں اس ہیرنگ میں شامل تھا ان کی بہنیں بھی دلیر تھیں اور میرا لیڈر بھی دلیر تھا رونے کی بات اپ کرتے ہیں تو ان کی بہنوں سے میرا مکالمہ بھی ہوا علیمہ خان سے بڑے ہوش و حواس میں اور بڑی دلیری کے ساتھ وہاں پہ وہ موجود تھی اگرچہ مجھ سے الجھ رہی تھی لیکن ایک بہن اور بھائی کا اور جلدنا کوئی استین بات نہیں ہے خان بھی بڑا زبردست سوٹ پہنے ہوا تھا اور جب ہم نے اس کو بتایا کہ ایک عورت تین سیٹیں لے رہی ہے اپنے لیے جنرل بھی اور دو ریزرو کی بھی تو انہوں نے حیرانگی کا اظہار کیا جدہ میں میرے دوست مرزا گلنار بیک مرحوم فوج اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے یہ بات کیا کرتا تھا بلکہ بنگالیوں اور پاکستانیوں کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے جب وہاں ڈھاکہ میں ہم میچ جیت رہے تھے وہ کہا کرتے تھے کرے دریا نہ پل مسمار میرے ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے میرے دوست ملک میں الدین چودری اکرم چوہدری اعظم اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے پاک فوج کے لیے کیا کیا کچھ نہیں کیا جب لسانیت پرست سمپولیے 1992 میں پاکستان کے جسم کو ڈس رہے تھے تو میں نے جنرل نصیر اللہ بابر کا صاف دیا تھا اور وہ ایم کیو ایم اور اس کے چاہنے والے پاکستانیت کو کھا رہے تھے تو میں وہ واحد صحافی تھا جس نے کھل کے بات کی اور شہباز کو میں یاد کرنا چاہوں گا کہ جب اس وقت کے وزیراعلی عبداللہ شاہ کو لوگوں نے گھیر رکھا تھا اور جب کراچی میں ریاست کے اندر ایک ریاست بن رہی تھی تو میں نے یہ سوال کیا تھا اور انہیں ویلکم کہا تھا کہ اپ جدہ میں ائے ہیں اور اپ نے ریاست کے اندر ریاست ختم کی ہے اور اپ کو مبارکباد دیتا ہوں سارے میرے اوپر چڑھ دوڑ ہے کیونکہ صحافت تو سمجھتے تھے کہ بھئی یہ صرف اردو سپیکنگ کمیونٹی کا کام ہے تو بہرحال ہماری اواز اٹھتی رہی یہ الگ بات ہے کہ ہم کسی کی بددعا کا شکار ہو گئے اور اسی جدہ میں جیل میں بند کر دیے گئے جنرل اسم صاحب ا جائیں ہمارے سینے لگ جائیں اجائیں عثمان ڈار کی ماں کے سر کے اوپر ہاتھ رکھیں اجائیں صنم جاوید کو باہر نکالے اجائیں اجاز چودری اور عمر چیمہ کو اپنا بھائی بنا لیں یہ پاکستان اپ سے کچھ نہیں مانگتا صرف انا کے ایسے بت کو توڑنے کی بات کرتا ہے توڑ دیجیے ان بتوں کو جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر بے شمار بتوں کو ختم کیا تھا اپ بھی ایسے ہی کریں اور پاکستان تحریک انصاف کے لوگ فوج کو گلے سے لگائیں کہ جس طرح اس نے ایران کا منہ توڑ جواب دیا پنجابی میں کہتے ہیں ٹھنڈ پڑ گئی ہے ا کے فوج کے گلے لگے ہیں اور ایسے ہی ہو ان ملیں سینہ چاکان چمن سینا چاک کے ساتھ
ہم تو چوہدری رحمت علی کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کا مطالبہ کرتے کرتے تھک گئے ہیں
زندہ ڈاکٹر عافیہ کو تو پاکستان لایا جائے
Comments are closed.