محاسبہ
ناصر جمال
دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں
’’دوستوں‘‘ کی۔۔۔مہربانی چاہئے
(عبدالحمید عدم)
’’بالکے‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ ہمیں وزارت نہیں،صدارت چاہیئے۔صدارت کے ساتھ چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، گورنرز، قائمہ کمیٹیاں وغیرہ بھی مل جائیں تو، چلے گا۔ اس کے باوجود، پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ نہیں ہوگی۔ ہم حکومت کا ساتھ سیاسی استحکام کے لئے دے رہے ہیں۔
لڑکے کی پریس کانفرنس کے بعد سے ہنس ہنس کے برا حال ہے۔
محترمہ کا لخت جگر پیدائشی بیوقوف ہے یا حادثاتی، قلم کار کو یہ تو کنفرم نہیں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ وہ اور ابا جی اس پوری قوم کو صرف ’’ماموں‘‘ سمجھتے نہیں ہیں۔ بنانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
ملک پر کمپنی اور اس کے اتحادی(ن) لیگ،پیپلز پارٹی اور متحدہ کا زور سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ الیکشن ہوئے پانچ روز ہوچکے ہیں۔ مگر گنتی اور نتائج آنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ جس کو چاہتے ہیں،جو چاہتے ہیں، جتنے سے چاہتے ہیں۔ جتا اور ہرا دیتے ہیں۔ہر طرح کے ٹوٹیفکیشن الیکشن کمیشن کی پٹاری میں موجود ہیں
’’نام بتائیں، لاش اٹھائیں‘‘
سر جھکائیں۔ اعمال نامہ سیدھے ہاتھ میں لے جائیں۔ سر اٹھائیں اور سرقلم کروالیں۔ فرعون والے دعوے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دھرتی پر ”دجال جی“ قبل از وقت ہی اتر آئے ہیں۔ جس کو چاہتے ہیں زندگی، جس کو چاہے موت، جس کو چاہتے ہیں پھر سے زندہ کردیتے ہی۔
جس کو چاہتے ہیں۔انتخابی موت دے دیتے ہیں۔
پاکستان میں دھاندلے، ڈاکے جیسے لفظ،اب اپنی اہمیت کھوچکے ہیں۔ڈکشنری میں مینڈیٹ ہڑپ کرنے کے حوالے سے الفاظ ہی نہیں مل رہے۔
عوام کو غصہ نکالنے کے لئے، قلم کار کو صورتحال بیان اور واضح کرنے کے لئے، کچھ بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس لئے،ایک ہیجان، جنون، بے بسی، غصہ، نفرت، جہاں پل رہی ہے۔ اُسے پلنے دیں۔ اُس کی مرضی ہے۔اُس نے جب جہاں نکلنا ہو۔نکلتا رہے۔ ہمارا کیا لینا دینا۔
بنگالی صحافی کے ٹویٹ نے تمام پاکستانیوں کے سرشرم سے جھکا دیئے ہیں۔اس نے صرف یہ لکھا کہ ’’اب تو پتا چل ہی گیا ہوگا کہ مجیب الرحمٰن کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
پہلے سندھ کارڈ استعمال ہوتا تھا۔اب یہ کارڈ، بلوچستان سے ہوتا ہوا۔ کے۔ پی جاپہنچا ہے۔ پنجاب تو پہلے سے ہی مفتوح تھا۔اس بار صرف بغاوت سوچنے پر، اُسے کان پکڑوا کر، اس کی سندھ اور بلوچستان کی طرز پر ’’تشریف‘‘ لال کردی گئی ہے۔اگلا مرحلہ،نامردانگی کا ہوگا۔اس لیے باز آجاؤ۔
بنگلہ دیش والا ٹریلر تو پنجاب میں چل ہی چکا ہے۔ اُمید ہے۔ مجھ سمیت تمام پنجابی پوری فلم سے پہلے ہی ’’تجدید ایمان‘‘ کرلیں گے۔ او پھر سے کلمہ پڑھ نہیں بلکہ حفظ لیں گے۔
کے۔ پی والے کیونکہ گولی مارتے ہیں۔
وہاں گھر میں روٹی ہو نہ ہو۔ کلاشنکوف ضرور ہوتی ہے۔لہٰذا، ان سے اُن کے ’’جرگہ‘‘ سسٹم کے ذریعے، معاملات طے کرلئے جائیں گے۔ ویسے بھی گورے نے جاتے ہوئے، ہمارے کالے انگریزوں کو مختلف قومیتوں کے لئے،کچھ فارمولے وضع کرکے دیئے تھے۔اُمید ہے، وہ نسخے، ابھی بھی نسخہ کیمیا والا کام کریں گے۔
مگرہماری اسٹیبلشمنٹ نے کیونکہ کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ لہٰذا،وہ کوئی نہ کوئی گُل کھلا کر رہے گی۔
اس وقت،کمپنی کو جس بات کا احساس تک نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ کمپنی اپنا’’بیس‘‘ پنجاب اور کے۔پی۔ ہار چُکی ہے۔کوئی کچھ بھی کہتا رہے۔کمپنی کے اکثریتی شیئرز، انھی کے پاس ہیں۔یعنی گھر میں بغاوت ہوچکی ہے۔اکثریت نے بدترین ریاستی تشدد، جبر، جیلوں، دھونس، دھاندلی،مقدمات، قید و بند کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے، سیدھے،سیدھے،ٹکر لے لی ہے۔اب تو بس پھانسیاں ہی رہ گئیں ہیں۔
فرعون کی طرح، بچوں کا بے دریغ ذبح کیا جانا رہ گیا ہے۔لوٹ مار، خواتین کی تذلیل سے تو بات نہیں بنی، بچوں کو کومے میں مارنے سے بھی بات نہیں بنی۔ مست مجذوبوں کو زندگی سے رہائی دلوانے کے باوجود، لوگ نہیں ڈرے۔کاروباروں کی تباہیاں بھی،لوگوں کو دبا نہیں سکیں۔
اب تو سرعام کوڑے اور پھانسیاں ناگزیر ہوچکی ہیں۔ قلم کار نے بنگلہ دیش کو فیض احمد فیض، نصیر ترابی، مسعود۔ اے خان، نوابزادہ نصر اللہ خان سے لیکر کئی لوگوں کی نظر سے دیکھا۔ پڑھا، سمجھا، اپنے ویژن سے دیکھا۔ جہاں بنگلہ دیش کے لوگ 24 سال میں پہنچے تھے۔ کپمنی پی۔ ڈی۔ ایم اور پیپلز پارٹی سمیت ریاستی و سیاسی اتحادیوں نے پاکستانیوں کو صرف نو ماہ میں وہاں پر پہنچا دیا ہے۔یہ باقی تین صبح کی نفرت بڑی کامیابی سے پنجاب میں بھی کھینچ لائے ہیں۔اس کا کریڈٹ نہ دینا حافظ صاحب سے زیادتی ہوگی۔
جیسے ڈھاکہ میں کمپنی کے دفاتر میں مینڈیٹ چوری کرکے،اُسے اتحادیوں میں ’’ریوڑیوں‘‘ کی طرح تقسیم کیا گیا تھا۔جیسے وہاں انسان نہیں،سفید زمین کے منصوبے تھے۔آج 53 سال کے بعد پھر سے وہی صورتحال بن رہی ہے۔
اس وقت بھی میڈیا نے مجرمانہ کردار ادا کیا تھا۔ آج بھی وہی کردار ادا کررہا ہے۔ بلکہ اُس سے بڑھ کر ادا کررہا ہے۔قوم کو اس وقت بھی فتح کی خوشخبریاں سنا رہا تھا۔اج بھی حکومت بنانے کی فیوض و برکات سے مستفید کر رہا ہے۔
صرف چند آوازیں ہیں۔جو مختلف ہیں۔دھرتی کے درد میں ڈوبی ہیں۔وگرنہ سب کی سب مراعات اور اشتہارات کے سامنے ڈھیر ہوچکی ہیں۔ راتب، شٹراپ، شٹراپ،کرکے اندر کر رہے ہیں۔
اب جبکہ کمپنی، نواز، زرداری اتحاد ایک بار سے پھر سے وجود میں آچکا ہے۔ میڈیا سیٹھوں کے موٹے موٹے کبھی نہ بھرنے والے پیٹ دیکھنے والے ہونگے۔ لوٹ مار کا، ایک نیا دور شروع ہوگا۔معذرت کرتا ہوں، جہاں سے سلسلہ تھما ہوا تھا۔ وہاں سے پورے زور و شور سے شروع ہوگا۔ چلیں، نگرانوں کا ہر فعل، ’’حلال‘‘ قرار دے دیا جائے گا۔ یہ بھی کیا یاد کریں گے۔ حصہ بقدر جثہ، ریاست کے وسائل کے لئے نیا فارمولہ ہوگا۔ سب اپنی، اپنی چراہ گاہوں میں آزاد اور بااختیار ہونگے۔
پاکستان میں ایک ہی اصول چلے گا۔
’’جو آئے پہلے وصول، باقی سب کام فضول‘‘
قارئین
پاکستان بدترین صورتحال سے دوچار ہونےجارہا ہے۔ عالمی قوتوں اور مالیاتی اداروں نے، جو سخت باتیں کہیں ہیں۔ وہ عمران خان یا کسی عوامی مینڈیٹ کی محبت میں نہیں کہیں۔ کڑی سے کڑی شرائط منوائی جائیں گیں۔ پاکستان کے مفادات، شدید خطرات سے دوچار ہوچکے ہیں۔
جعلی مینڈیٹ والے،اپنی بین الاقوامی قبولیت اور اپنے ہاتھوں سے تباہ کی گئی معیشت میں سے ’’اپنے‘‘ لئے، بہت کچھ نکالنے کے لئے، اس ملک میں ’’اولیکس لوٹ سیل‘‘ لگائیں گے۔ ’’سب بیچ دے۔سب بیچ دے کی ہر سمت صدائیں ہوں گی“
ھم خطے میں، شرمناک رینٹ اے کنٹری کا کردار ادا کریں گے۔
’’مودی جی‘‘ کو الیکشن جتوانے کے لئے بھی سہولت کاری کریں گے۔ دیکھتے جائے بہت کچھ ہونے اور بدلنے جارہا ہے۔
پاکستان میں بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہونگی۔ اظہار رائے کی آزادی، بدترین پابندیوں کی زد میں آئے گی۔ عوام کو کولہو کا بیل بنا کر، ان کی ہڈیوں سے تیل نکالا جائے گا۔
کے۔ پی میں محاذ آرائی کی جائے گی۔ علی امین گنڈاپور کی نامزدگی سے، جو شروع ہوچکی ہے۔ عدالتیں، انصاف کا قبرستان، بنی رہیں گی۔ جہاں منصف ہر روز ایک نئے مردے کی تدفین کریں گے۔ کچھ کو تو ’’گاڑ‘‘ بھی دیں گے۔ جبکہ باقیوں کو ’’گاڑھ‘‘ دیں گے۔
پورا ملک، تقسیم، بدترین نفرت میں جلے گا۔ اور ہر روز جلے گا۔ گورنر راج اور وزیر اعلیٰ کے۔ پی کی گرفتاری، اس آگ پر تیل نہیں،ہائی آکٹین تیل کا کام کریں گے۔
عبرت کی مثال جو سیٹ کرنی ہے۔
اس ملک میں سب سے مقدس اور اہم ترین فریضہ ، ”ایک اور توسیع“ ہوگا۔اس کے لیے ہر چیز کو رون دیا جائے گا
ملک کا سلور گولڈ کوڑیوں کے داموں بیچ دیا جائے گا۔ ’’پٹاخے‘‘ گروی ہونگے۔ ہرسمت شیطانی رقص ہوگا۔ کبھی نہ تھمنے والا، صرف غلام محفوظ ہونگے۔
سب کچھ پیش کرنے والے۔ بے ضمیروں کا غلبہ ہوگا۔ تخت و تاج زندہ باد کی صدائیں ہونگی۔
ہم جیسے سرپھرے لوگوں کی لاشیں، بے گوروکفن، اجتماعی قبروں میں ہونگی۔
عُہدے سلامت رہن
وردیاں دے کلف سلامت رہن
جاتی عمرے تے بلاول ہائوس سلامت رہن
نائن زیرو تے ’’باپ‘‘ دے ڈیرے سلامت رہن
شاہی سواریاں،شہزادے تے شہزادیاں سلامت رہن
خدمت لئے، 25 کروڑ غلام سلامت رہن
ہم کے ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب چمن میں آئے گی بے داغ سبزے بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
(فیض احمد فیض)
Comments are closed.