وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف
شاہد اعوان، بلاتامل
مریم نواز شریف اپنے والد میاں محمد نواز شریف کی وہ لاڈلی بیٹی ہیں جن کی ہر خواہش انہوں نے پوری کی۔ مریم ایک خاتون ہیں آئیے دیکھتے ہیں عورت کا وجود کائنات میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا اگر پھول ہے تو عورت اس کی خوشبو، کائنات اگر دل ہے تو یہ اس کی آرزو، جہانِ رنگ و بو اگر منزل ہے تو یہ جستجو، یہ صفحہ دہر اگر آنکھ ہے تو عورت اس کا آنسو ہے۔ غرض عورت آئینے کا عکس اور پھولوں کا رس ہے یہ بہار کا جوبن اور گھٹا کی پھبن ہے، قوس و قزح کا حسن اور ساز کی دھن ہے، آکاس بیل کی گرفت، سنگ مرمر کی معصومیت، آنکھ کی بصیرت اور رگ و گل کی نزاکت ہے۔
مریم نواز سے فقیر کی واحد اتفاقیہ ملاقات 2001ء میں اس وقت ہوئی جب وہ اپنی والدہ مرحومہ کلثوم نواز کے ساتھ ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے مظالم کے خلاف برسرپیکار تھیں دونوں ماں بیٹی پشاور سے آتے ہوئے راستے میں حسن ابدال میں کچھ وقت کے لئے نماز مغرب کی ادائیگی اور چائے پینے کے لئے ایک ہوٹل پر رکی تھیں۔ ایجنسیوں کے اہلکار ان کے تعاقب میں تھے، مجھے بھی ’ذرائع‘ نے بیگم صاحبہ کی آمد کے بارے مطلع کیا سو آمر مشرف کے عتاب کا شکار مظلوم خاندان کی خواتین سے ملنے وہاں پہنچا تو بیگم کلثوم نماز ادا کر رہی تھیں جبکہ ایک صوفے پر چھوئی موئی سی لڑکی بیٹھی تھی۔ نماز کے بعد بیگم صاحبہ کو ان کے گارڈ نے بتایا کہ ایک صحافی آپ سے ملنا چاہتا ہے جس پر کمال مہربان خاتون نے مجھے بلا لیا۔ کافی دیر تک ان سے گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا اس دوران انہوں نے بتایا کہ اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو سیاست نہیں کرنے دوں گی اور ان کو بیرون ملک بھیج دوں گی، بعد ازاں انہوں نے اپنی کہی بات کو سچ کر دکھایا اور اپنے بیٹوں کو سیاست سے دور رکھا۔ میں نے اس دوران مریم نواز سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ زبان سے ایک لفظ تک نہ بولیں اور والدہ کی جانب اشارہ کر دیا کہ وہی بات کریں گی۔ خیر یہ ایک اتفاقیہ ملاقات تھی، تقریباٌ اس ملاقات کے16سال بعد جب میاں نواز شریف کی حکومت دوبارہ ختم کی گئی تو مریم ایک بپھری ہوئی شیرنی کی طرح میدانِ عمل میں آئیں اور لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کام تھا انہیں قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ماضی میں بی بی شہید بینظیر بھٹو کو بھی مجبوراٌ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد عملی سیاست میں آنا پڑا تھا اور پھر وہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ اب 2024ء میں ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پہلی بار ایک خاتون مریم نواز کے حصے میں آئی ہے۔ پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 60%پر مشتمل ہے اٹک سے رحیم یار خان تک ٹرین تقریباٌ 18گھنٹے دوڑتی رہتی ہے۔ یہ ایک ایسا بھری پتھر ہے جو مریم نواز نے ایک چیلنج سمجھ کر اٹھا لیا ہے ان کی بطور وزیراعلیٰ پہلی تقریر کو دیکھا جائے تو سوائے عاجزی اور فلاح انسانیت کے کچھ اور نہیں، اسی طرح صوبہ سندھ کی وزراتِ اعلیٰ کی مسند پر تیسری بار بیٹھنے والے مراد علی شاہ نے اپنے صوبے کے عوام کے لئے فلاحی کاموں کا اعادہ کیا، بلوچستان کے نومنتخب وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے صوبے کے مسائل اور دہشت گردی کے خلاف کام کرنے کی باتیں کیں، لیکن صوبہ خیبرپختونخواہ کے نئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے عوامی مسائل کے حل کی بجائے اداروں سے ٹکراؤ اور مخالفین و بیوروکریسی کے ”کڑاکے“ نکالنے کی بات کر کے ملک بھر میں ایک خوفناک لہر پیدا کر دی ہے جو موجودہ حالات میں قوم کے لئے امید کے بجائے مایوسی کو ہوا دیتی ہے ملک اس وقت ان باتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ موصوف نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی حلف برداری تقریب میں شریک نہ ہو کر ایک بار پھر نفرت اور تقسیم کی سیاست کا پیغام دیاہے۔ البتہ مریم نواز بڑے صوبے کی وزیراعلیٰ ہیں اور خاتون ہونے کے ناطے قابل احترام بھی ہیں انہیں چاہئے کہ وہ پوری طاقت سے عوامی مسائل کی طرف توجہ دیں خصوصاٌ رمضان المبارک کے موقع پر مہنگائی کے ستائے لوگوں کو رمضان پیکج کے علاوہ صوبہ بھر میں ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کے خلاف عملی اقدامات کو یقینی بناکر روزہ داروں کی دعائیں سمیٹیں۔ اٹک سے لیگی راہنما نوابزادہ چوہدری شیر علی خان کو صوبائی وزارت دیں تاکہ وہ علاقہ کی محرومیوں کا مداوا کر سکیں اور پارٹی کو مزید مضبوط کرنے کے لئے فعال کردار ادا کر سکیں وہ ایک باعزت گھرانے کے فرد ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنی جماعت کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے۔
Comments are closed.