ٹکراؤ کی سرحد : کسٹمز اہلکار اور فرنٹیئر کور آمنے سامنے

ٹکراؤ کی سرحد: کسٹمز اہلکار اور فرنٹیئر کور آمنے سامنے

 طورخم بارڈر پر اختیارات کی جنگ ۔

پشاور

شمشاد مانگٹ

بائیس مئی 2025ء کو شام 4 بج کر 45 منٹ پر طورخم بارڈر پر ایک غیرمعمولی واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف سرکاری اداروں کے اختیارات پر سوالات اٹھا دیے بلکہ دونوں محکموں پاکستان کسٹمز اور فرنٹیئر کور، کے درمیان کشیدگی کو بھی نمایاں کر دیا۔

ذرائع کے مطابق فرنٹیئر کور کے ونگ کمانڈر اپنی ٹیم کے ہمراہ زیرو پوائنٹ پر واقع کراس بارڈر علاقے کا دورہ کر رہے تھے جب ان کی نظر افغان شہری ڈرائیور نور نبی عثمان زئی ولد زر نبی (شناختی نمبر: 1403-0401-19054) پر پڑی، جو ایک کنٹینر کے باہر کھڑا تھا۔

ونگ کمانڈر نے دعویٰ کیا کہ کسٹمز کے ایک اہلکار، سپاہی زماد خان، نے مبینہ طور پر اس ڈرائیور سے ایک ہزار روپے رشوت وصول کی ہے۔

واقعے کے بعد ایف سی کے کرنل نے موقع پر موجود کسٹمز انسپکٹر کو حکم دیا کہ وہ سپاہی کی جسمانی تلاشی لے، جس پر سپاہی کی جیب سے دو ہزار روپے برآمد ہوئے۔

جب انسپکٹر نے رقم کے متعلق سوال کیا تو سپاہی نے بیان دیا کہ یہ رقم اس کی ذاتی ملکیت ہے۔ تاہم، بات یہیں ختم نہ ہوئی۔

فرنٹیئر کور ایف سی نے مبینہ طور پر سپاہی زماد خان اور افغان ڈرائیور کو حراست میں لے کر ایف سی کمپاؤنڈ منتقل کیا، جہاں دباؤ کے تحت ڈرائیور کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

بعد ازاں دونوں افراد کو انسپکٹر اور سپرنٹنڈنٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ مزید تفتیش میں انکشاف ہوا کہ سپاہی نے اپنی ڈیوٹی دوپہر 2:30 بجے سنبھالی تھی اور اس دوران کل 45 گاڑیاں مکمل کسٹمز قوانین کے مطابق کلیئر کی گئیں۔

تاہم سب سے خطرناک پہلو یہ سامنے آیا کہ فرنٹیئر کور نے نہ صرف کسٹمز کی حدود میں مداخلت کی بلکہ وہاں مستقل طور پر ایک اپنا سپاہی بھی تعینات کر رکھا ہے ، جو کہ کسٹمز ایکٹ 1969 کی واضح خلاف ورزی ہے ۔

کسٹمز ذرائع کے مطابق صرف زیرو پوائنٹ ہی نہیں بلکہ آمد، روانگی اور گیٹ ان کے تمام کسٹمز اہلکاروں کو ایف سی کی جانب سے مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے، جس سے اہلکاروں کا مورال بری طرح متاثر ہوا ہے۔

کسٹمز حکام نے اس واقعے کی مکمل رپورٹ اعلیٰ افسران کو ارسال کر دی ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کسٹمز کے آئینی دائرہ اختیار میں مداخلت ناقابلِ قبول ہے اور اس سے نہ صرف اہلکاروں کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے بلکہ ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی بھی متاثر ہوتی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اعلیٰ حکام اس معاملے پر کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں اور آیا دونوں محکموں کے درمیان اس کشیدہ صورت حال کو حل کرنے کے لیے کوئی مؤثر قدم اٹھایا جاتا ہے یا نہیں۔

Comments are closed.