وردی کا جرم

تحریر: لیاقت علی

Liaqat Mangatیہ ملک شاید دہشت گردوں، کرپٹ سیاستدانوں یا چور حکمرانوں کی وجہ سے تباہ نہیں ہوا، بلکہ اس تباہی کی جڑ وہ وردی ہے جو تھانے میں پہن کر پولیس اہلکار خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں۔ اس وردی کی عزت کی باتیں تو کتابوں میں ہوتی ہیں، مگر جب عام شہری کسی تھانے کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، تو اسے وہاں انصاف نہیں، گالیاں، دھمکیاں، ذلت اور بے بسی ملتی ہے۔

یہ وہی تھانے ہیں جہاں فرش پر بیٹھا شہری اپنے لٹے ہوئے مال کے واپس ملنے کی امید کرتا ہے، اور سامنے بیٹھا ہوا اہلکار یا تو پان چبا رہا ہوتا ہے، یا کسی “پارٹی” سے فون سن رہا ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو عوام کے محافظ کا لقب دیا گیا، وہی لوگ چوروں کے ساتھ کھاتے پیتے اور لسی پی کر سو جاتے ہیں۔

تھانے میں وردی مکمل نہیں ہوتی، اخلاق تو سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ ایک عام شکایت لے کر جاؤ تو تمہیں ایسے گھورا جاتا ہے جیسے تم ہی مجرم ہو۔ گالیاں معمول بن چکی ہیں، اور اگر تم نے ذرا آواز اونچی کی، تو “پھڑ لو، حوالات وچ بند کرو” کا آرڈر بغیر سوچے سمجھے دے دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ SHO، DSP یا DPO سے شکایت کرے گا اور انصاف ملے گا، تو وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ شکایت آگے پہنچانے کی کوئی نیت ہی نہیں۔ یہ پورا نظام اندر سے سڑا ہوا ہے، جہاں ایک ہاتھ دوسرے کو بچاتا ہے۔ SHO اپنے سپاہی کو بچاتا ہے، DSP SHO کو، اور DPO پوری گندگی پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اوپر تک سب کو پتا ہوتا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے، مگر سب “اپنے بندے” کو بچاتے ہیں۔

سب سے زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ ڈرگ مافیا اور چوری کی وارداتوں میں خود پولیس کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ محلے کا کون سا بندہ نشہ بیچ رہا ہے، کون ڈکیتی کر کے آیا ہے، کس نے نئی موٹر سائیکل چرا کے بیچی ہے — سب کچھ پولیس کو معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب تک ان جیبیں گرم ہو رہی ہیں، کسی پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ دن دیہاڑے نوجوان نشہ بیچ رہے ہوتے ہیں، اور پولیس والا ان سے رشوت لے کر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ رات کو گشت کی بجائے وہ اپنے تھانے کے کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ سلگا کر، موبائل پر فلمیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔

عوام چاہے مر جائے، پولیس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کی بہن کی عزت لٹ جائے، کسی کا بچہ اغوا ہو جائے، کسی کا موٹر سائیکل چوری ہو جائے — پولیس صرف ایک کام میں ماہر ہے: “کاغذی کارروائی”۔ ایف آئی آر درج کروانے کے لیے رشوت، ملزم پکڑوانے کے لیے رشوت، اور اگر بات کسی بااثر بندے کی ہو تو الٹا مدعی کو ہی ملزم بنا دیا جاتا ہے۔

اور یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ نظام میں نہ خوفِ خدا ہے، نہ احتساب۔ جو پولیس والے واقعی ایماندار ہیں، انہیں یا تو سائیڈ پر لگا دیا جاتا ہے، یا اتنا پریشان کر دیا جاتا ہے کہ وہ خود ہی خاموش ہو جاتے ہیں۔ جو وردی کبھی خوف کی علامت تھی، اب وہی وردی چوروں، بدمعاشوں، اور قاتلوں کی محافظ بن چکی ہے۔

پولیس کی وردی اب ایک ظالم نظام کی علامت بن گئی ہے، جو کمزور پر ظلم کرتی ہے اور طاقتور کو سلام۔ جب تک اس نظام کو جڑ سے نہ کاٹا جائے، جب تک ہر تھانے میں کیمرے، آزاد تحقیقاتی ادارے، اور مکمل نگرانی نہ ہو، تب تک یہ بوسیدہ، بے رحم، اور بدنام پولیس کبھی اس قوم کی خدمت نہیں کر سکتی۔

یہ کالم کسی جذباتی فقرے کا اختتام نہیں چاہتا، کیونکہ حقیقت اتنی کڑوی ہے کہ صرف ایک لفظ کہنے کو دل کرتا ہے:

لعنت۔

Comments are closed.