صحافی کو حبس بے جا میں رکھنے پر سینیٹ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات کا ایس ایچ او تھانہ نیو ٹاون کو معطل کرنے کی سفارش
آئندہ اجلاس میں آئی جی پنجاب ،آر پی او راولپنڈی ،سی پی او راولپنڈی اور ایس ایچ او طلب
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر طارق علی ورک کے ساتھ ناروا سلوک، تضحیک آمیز رویہ اور حبس بے جا میں رکھنے والے راولپنڈی تھانہ نیو ٹاؤن کے ایس ایچ او طیب بیگ کو معطل کر کے ان کے خلاف انکوائری کی سفارش کر دی اور آئندہ کمیٹی میں آئی جی پنجاب ،آر پی او راولپنڈی ،سی پی او راولپنڈی اور ایس ایچ او کو طلب کر لیا ہے ۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی علی ظفر کی سربراہی میں منعقد ہوا اجلاس میں سینیٹر عرفان صدیقی ،سینیٹر پرویز رشید ،سینیٹر وقار مہدی اور سینیٹر جان محمد بلیدی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے شرکت کی ۔
انہوں نے کہا کہ آج اس اجلاس میں ہم نے اس معاملے کا ایسا فیصلہ کرنا ہے کہ آئندہ کوئی بھی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کر سکے اس واقع میں ملوث پولیس آفیسر اور اہلکاروں کو مثال بنانا ضروری ہے ۔
چیئرمین کمیٹی نے ایڈیشنل سیکرٹری برائے وفاقی وزارت داخلہ سے استفسار کیا کہ آپ کو ہدایت کی گئی تھی کہ تھانہ نیو ٹاؤن کے ایس ایچ او طیب بیگ اور سی پی او اور آر پی او کو کمیٹی اجلاس میں لیکر آئیں وہ کیوں نہیں آئے ؟ ۔
اس کے جواب ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا لیکن راولپنڈی پولیس نے اپنی انکوائری رپورٹ ہمیں اور کمیٹی کو پیش کی ہے ۔
جس پر چیئرمین کمیٹی علی ظفر اور کمیٹی ممبران نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ایجنڈا بھیجا گیا تھا اس میں اس حوالے سے ہدایات دی گیئں تھیں اور راولپنڈی پولیس کی طرف سے ہمیں کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی اور نہ ہی ہم راولپنڈی پولیس کی کسی انکوائری کو تسلیم کرتے ہیں ۔
سینئرعرفان صدیقی نے کہا کہ یہ معاملہ سینیٹ میں پیش کیا گیا جبکہ صحافیوں کی تنظیم پارلیمانی رپورٹر ایسوسی ایشن نے سینٹ اجلاس سے واک آؤٹ کیا جس پر چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے ایک سپیشل کمیٹی میری سربراہی میں بنائی جبکہ یہ معاملہ اس قائمہ کمیٹی کو بھجواتے ہوئے ہدایات کی ہیں کہ جلد از جلد کمیٹی اپنی سفارشات کی رپورٹ سینیٹ میں پیش کریں ۔
سینیٹر جان محمد بلیدی نے کہا کہ صحافیوں پر تشدد کے واقعات عالمی سطح پر نوٹ ہوتے ہیں جبکہ صحافیوں کے صدر طارق علی ورک پر تشدد سے عالمی سطح پر ملک اور قوم کی بدنامی ہوئی ہے اور یہ تاثر گیا ہے کہ پاکستان میں صحافی محفوظ نہیں ہیں ۔
کمیٹی نے ایس ایچ او اور راولپنڈی پولیس کے اعلیٰ افسران کو طلب کیا لیکن انہوں نے آنا تک گوارہ نہیں کیا ، یہ کمیٹی کی تذلیل کی گئی ہے ۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ معاملہ میرے پاس آیا ہے میں نے صدر پی ایف یو جے افضل بٹ کی قیادت میں ملنے والے وفد سے اپنی اور حکومت پنجاب کی طرف سے معذرت کی کیونکہ پنجاب میں بھی ہماری ہی حکومت ہے جبکہ صحافیوں کے معاملات میری زمہ داری ہے ۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ میں نے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن بعض وجوہات کی بنا پر معاملہ تاخیر کا شکار ہوا ہے ۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کمیٹی کو تجویز دی کہ یہ معاملہ چونکہ پہلے ہی وفاقی وزیر اطلاعات دیکھ رہے ہیں لحاظہ ہم انہیں ہی ایک موقع اور فراہم کرتے ہیں کہ وہ پنجاب حکومت آئی جی پنجاب اور راولپنڈی پولیس سے بات چیت کرتے ہوئے معاملہ حل کریں ۔
اس موقع پر سینیٹر جان محمد بلیدی نے اس تجویز کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر ایک ماہ میں معاملہ حل نہیں کر سکے جبکہ راولپنڈی پولیس نے آج کمیٹی اجلاس میں پیش ہونے کی زحمت گوارہ نہیں کی ، ہمیں آج فیصلہ کن سفارشات دینا چاہیں ۔
سینیٹر وقار مہدی نے بھی کہا کہ یہ معاملہ کسی کو ریفر کرنے کی بجائے ایس ایچ او کے خلاف کاروائی کی جائے ۔
اجلاس میں صدر راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر طارق علی ورک نے اجلاس کو واقعے کے بارے میں بریفننگ دی اور کہا کہ یہ میری ذات کا نہیں بلکہ ازادی صحافت کا ایشو ہے ، تقریباً ایک ماہ گزرنے کے باوجود ایس ایچ او کے خلاف کاروائی نہ ہونا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ راولپنڈی پولیس کسی قانون کو نہیں مانتی ۔
سیکرٹری نیشنل پریس کلب اسلام آباد نیئر علی نے کہا کہ پولیس کی طرف سے ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں ہم نے پیش ہو کر اپنا تفصیلی بیان ریکارڈ کروایا تھا ، لیکن پولیس نے تاحال فیصلے سے آگاہ کیا نہ ہی ایس ایچ او طیب بیگ کے خلاف کوئی کارروائی کی ، ہمیں یہ پیشکش کی گئی کہ ایس ایچ او پریس کلب آ کر معافی مانگے گا مگر ایسا بھی نہیں ہوا ، پولیس کی جانب سے اس پیشکش کا مطلب واضح ہے کہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایس ایچ او نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ، لیکن اب ہمارا مطالبہ معافی نہیں بلکہ ایس ایچ او کے خلاف مقدمے کا اندراج ہے ۔
صدر پی آر اے عثمان خان اور سیکرٹری پی آر اے نوید اکبر نے کہا کہ اتنے بڑے واقعے اور کئی دن گزرنے کے بعد بھی ایس ایچ او کے خلاف کاروائی نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ پنجاب حکومت ایس ایچ او کی پشت پناہی کر رہی ہے ، پنجاب بھر میں صحافیوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھا جا رہا ہے ۔
کمیٹی نے ایس ایچ او تھانہ نیو ٹاؤن طیب بیگ کو فوری معطل کرکے اس کے خلاف انکوائری کرکے رپورٹ پیش کرنے کی سفارش کی اور کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں آئی جی پنجاب ،آر پی او راولپنڈی ،سی پی او راولپنڈی اور ایس ایچ او کو طلب کر لیا اور وفاقی وزرات داخلہ کو سختی سے ہدایات کیں کہ ان سفارشات پرعمل کریں اور مذکورہ افسران کو آئندہ اجلاس میں لیکر حاضر ہوں ۔
Comments are closed.