اسلام آباد ہائیکورٹ میں شفافیت پر سوالات، دو ججوں نے چیف جسٹس کو خطوط لکھ دیے

اسلام آباد ہائیکورٹ میں شفافیت پر سوالات، دو ججوں نے چیف جسٹس کو خطوط لکھ دیے

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2ججوں نے ہائی کورٹ میں شفافیت کی کمی پر سنگین سوالات اٹھا دیے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں فل کورٹ میٹنگ سے پہلے بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے نام خط لکھ کر نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کے 4 صفحات پر مشتمل خط کی کاپی سامنے آگئی، چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے نام ججز کے خط کی کاپیاں تمام ججز اور رجسٹرار کو بھجوائی گئی ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے اپنے خط میں کیسز کی فکسیشن اور روسٹر کی تیاری میں شفافیت اور منطق کی کمی کو اجاگر کیا ہے۔جسٹس بابر ستار اور جسٹس ایاز اسحق خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کو الگ الگ خط لکھے ہیں۔

دونوں ججوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ پر زور دیا ہے کہ وہ فل کورٹ اجلاس میں ان نکات کو شامل کریں جو خطوط میں اجاگر کیے گئے ہیں۔جسٹس بابر ستار نے اپنے خط میں کیسز کی فکسیشن اور روسٹر کی تیاری میں شفافیت اور منطق کی کمی کو اجاگر کیا ہے۔

انہوں نے کہا معتبر ادارہ جاتی اصولوں کے برعکس آپ نے ایسے روسٹر بنائے ہیں جن میں سینئر ججوں، جن میں سینئر جج محسن اختر کیانی بھی شامل تھے، کو ڈویژ نل بینچوں کی سربراہی سے خارج کیا گیا ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا کیسز کی فکسیشن چیف جسٹس کی خواہشات پر مبنی ہونی چاہیے یا اس میں شفافیت ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا ہم اپنے فیصلوں میں ہر روز لکھتے ہیں کہ سرکاری اہلکار بادشاہ نہیں ہیں اور ان کے انتظامی اختیارات نہ تو بے لگام ہیں اور نہ ہی ان کا استعمال پرفریب انداز میں کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے اپنے خط میں کہا آپ کی نگرانی میں جاری کردہ کاز لسٹیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کیسز زیادہ تر منتقل کیے گئے ججوں اور ایڈیشنل ججوں کو دیے جاتے ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ان مستقل ججوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو آپ کی اسلام آباد ہائیکورٹ منتقلی کو ناپسند کرتے ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے ماتحت عدلیہ پر نگرانی اور کنٹرول کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کیا اسلام آباد ہائیکورٹ اپنی ماتحت عدالتوں کی نگرانی اور کنٹرول کی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے ہائیکورٹ چیف جسٹس کو بتایا کہ کہ آپ کی نگرانی میں ہم نے دیکھا ہے کہ آفس عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کاز لسٹ جاری کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کیسز کو ایک عدالت کے ڈاکیٹ سے دوسری عدالت میں منتقل کیا جاتا ہے حالانکہ چیف جسٹس کے دفتر کو ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا یہ کچھ ججوں کو غیر متعلقہ بنانے میں کامیاب چالیں ہو سکتی ہیں۔ ہماری عدالتی تاریخ ایسی ہی بدنیتی پر مبنی کارروائیوں سے بھری پڑی ہے جو آمرانہ ادوار میں پھیلی تھیں۔ لیکن کیا عدالتی آزادی کو ایسے سبوتاژ کیا جانا جائز ہے؟۔

خط میں ان کمیٹیوں کی تشکیل پر بھی اعتراض کیا گیا ہے جو ہائی کورٹ کے اجتماعی کردار کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ جسٹس ستار نے چیف جسٹس کو بتایا کہ انہوں نے انتظامی کمیٹیوں میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو سینئر ججوں کو خارج کیا ہے۔

Comments are closed.