عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت ناگزیر، مقدمات نمٹانے کی رفتار تیز کرنا اولین ترجیح ، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی

عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت ناگزیر، مقدمات نمٹانے کی رفتار تیز کرنا اولین ترجیح ، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی

سپریم کورٹ میں ڈیجیٹل انقلاب کی تیاری، چیف جسٹس کا اندرونی آڈٹ، ای-سروسز اور فیسیلیٹیشن سینٹر کے قیام کا اعلان

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کا استعمال ناگزیر ہے مگر ابھی ہم اس کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقدمات کو جلد نمٹانا اور عوام کو فوری انصاف کی فراہمی عدلیہ کی اولین ترجیح ہے۔

اسلام آباد میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر منعقدہ جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تقریب ہماری سالانہ کارکردگی پر نظرثانی کا موقع فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا گیا جس کے تحت پانچ بنیادوں پر اصلاحاتی عمل کا آغاز کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں میں ای سروسز کا آغاز کر دیا گیا ہے جبکہ ڈیجیٹل کیس فائلنگ کا نظام متعارف کرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 61 ہزار مقدمات کی فائلیں ڈیجیٹلی اسکین کی جائیں گی اور یہ منصوبہ چھ ماہ میں مکمل ہوگا۔ کامیابی کے بعد کیسز کی فہرست بندی بھی مصنوعی ذہانت کے ذریعے کی جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے قانون کو مزید مؤثر بنایا جائے گا اور سائلین کو فوری انصاف ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ شفافیت کے فروغ کے لیے اندرونی آڈٹ کا عمل شروع کیا گیا ہے تاکہ ادارے کی کارکردگی مزید بہتر بنائی جا سکے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف 64 شکایات کے فیصلے ہو چکے ہیں جبکہ 72 شکایات رائے کے لیے ممبران کو بھجوائی گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس ماہ کے آخر تک سپریم جوڈیشل کونسل کی میٹنگ ہوگی جس میں مزید 65 کیسز ججز کو بھجوا دیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں عوامی رائے کے لیے خصوصی پورٹل فعال کر دیا گیا ہے، جبکہ فیسیلیٹیشن سنٹر یکم اکتوبر سے مکمل فعال ہوگا۔ یہ مرکز وکلا اور سائلین کے لیے تمام معلومات فراہم کرے گا، اور اس سے دفتری امور متاثر نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں اینٹی کرپشن ہیلپ لائن بھی قائم کر دی گئی ہے تاکہ عوام کو براہِ راست سہولت مل سکے۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عدالتوں کے سیکیورٹی پروٹوکول میں کمی کی گئی ہے۔ ان کے بقول: “میرے ساتھ 9 سیکیورٹی گاڑیاں ہوتی تھیں، انہیں کم کر کے صرف 2 کر دیا گیا ہے۔” انہوں نے کہا کہ ریڈ زون میں ضرورت سے زیادہ سیکیورٹی کی ضرورت نہیں، تاہم اسلام آباد سے باہر جانے پر ججز کو سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

تقریب میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کی فوری فراہمی ہمیشہ عدلیہ کی ترجیح رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کی نسبت التواء کے شکار کیسز میں کمی آئی ہے اور آئینی معاملات کے لیے خصوصی بینچز تشکیل دیے گئے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ کو جدید ٹیکنالوجی خصوصاً مصنوعی ذہانت کے استعمال کو مزید فروغ دینا چاہئے تاکہ انصاف کی فراہمی مزید مؤثر ہو سکے۔

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل طاہر نصراللہ وڑائچ نے چیف جسٹس کو عدالتی اصلاحات اور بار ایسوسی ایشنز میں انٹرنیٹ و سولرائزیشن جیسی سہولیات ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔

صدر سپریم کورٹ بار میاں محمد رؤف عطا نے کہا کہ وکلا آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کے داعی ہیں، تاہم عام شہریوں کو انصاف کی فراہمی میں مزید سہولتوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ ملک موسمیاتی تبدیلی سے جنم لینے والی بدترین سیلابی تباہ کاریوں کا شکار ہے اور ابھی تک اس پر مؤثر حکمت عملی وضع نہیں کی جا سکی۔

Comments are closed.