سی ڈی اے میں کروڑوں کے پلاٹ جعلی پاور آف اٹارنی پر منتقل ، ایف آئی اے کا افسران سمیت ملزم کے خلاف مقدمہ درج

سی ڈی اے میں کروڑوں کے پلاٹ جعلی پاور آف اٹارنی پر منتقل ، ایف آئی اے کا افسران سمیت ملزم کے خلاف مقدمہ درج

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اینٹی کرپشن سرکل نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے افسران اور ایک شہری کے خلاف جعل سازی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ملزم پر الزام ہے کہ اس نے جعلی پاور آف اٹارنی کے ذریعے اسلام آباد کے پوش سیکٹر D-13 فور میں پانچ قیمتی پلاٹوں کی ملکیت غیرقانونی طور پر اپنے نام منتقل کرائی۔

ایف آئی آر کے مطابق خرم امین نامی شخص، جو کہ رحیم یار خان کا رہائشی ہے، نے سی ڈی اے کے تین افسران کے ساتھ ملی بھگت کرتے ہوئے جعلی دستاویزات تیار کیے۔ ان جعلی دستاویزات میں پاور آف اٹارنی بھی شامل تھی، جسے سی ڈی اے میں جمع کرا کر پراپرٹی کی ملکیت کی تبدیلی کا عمل مکمل کروایا گیا۔

تحقیقات کے دوران سامنے آیا ہے کہ متعلقہ سی ڈی اے افسران نے نہ صرف ان جعلی دستاویزات کی جانچ پڑتال میں غفلت برتی بلکہ بظاہر جان بوجھ کر ان کاغذات کو چھپا کر پراسس کو مکمل کیا، جو پاکستانی قوانین کے تحت ایک مجرمانہ فعل کے زمرے میں آتا ہے۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق، یہ کارروائی ایک باقاعدہ شکایت موصول ہونے کے بعد عمل میں لائی گئی، جس پر ابتدائی انکوائری کے بعد مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ تفتیشی ٹیم نے متعدد شواہد اکٹھے کر لیے ہیں، جن میں مبینہ جعلی پاور آف اٹارنی، ملزم اور سی ڈی اے افسران کے مابین رابطے، اور ملکیت کی تبدیلی کے کاغذات شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پانچوں پلاٹ کروڑوں روپے مالیت کے ہیں، اور اس جعلسازی کی پشت پر ایک منظم نیٹ ورک کے ہونے کا بھی شبہ ہے۔ امکان ہے کہ مزید گرفتاریاں اور انکشافات آئندہ دنوں میں سامنے آئیں گے۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی قانون سے بالاتر نہیں سمجھا جائے گا، اور شفاف تحقیقات کے ذریعے اس کرپشن کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

واضح رہے کہ سی ڈی اے کے نظام میں جعلسازی اور اندرونی ملی بھگت کے ذریعے غیرقانونی الاٹمنٹ اور ملکیت کی تبدیلی کے کیسز ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ مقدمہ اپنی نوعیت کا ایک اہم کیس ہے، جس میں نہ صرف عوامی اراضی کے تحفظ کا سوال ہے، بلکہ ادارہ جاتی شفافیت پر بھی کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ایف آئی اے نے کیس کی مزید تحقیقات شروع کر دی ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ مقدمہ اسلام آباد میں سرکاری زمینوں کے حوالے سے جاری دیگر کرپشن کیسز کے لیے ایک مثال بنے گا۔ متاثرہ فریقین سے بھی ایف آئی اے نے رابطہ کر لیا ہے تاکہ اصل مالکان کی شناخت اور ان کے حقوق کی بحالی ممکن بنائی جا سکے۔

Comments are closed.