اقوام متحدہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا دیں ، تہران کا سخت جواب دینے کا اعلان

اقوام متحدہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا دیں ، تہران کا سخت جواب دینے کا اعلان

تہران

یورپی طاقتوں کی جانب سے شروع کیے گئے ایک عمل کے بعد اقوام متحدہ نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر دوبارہ ہتھیاروں کی پابندی اور دیگر پابندیاں عائد کر دی ہیں، تہران نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام کا سخت جواب دیا جائے گا۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ اس نے 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس کا مقصد ایران کو ایٹمی بم بنانے سے روکنا تھا، اور اس کے بعد انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پابندیاں بحال کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے ارادے کی تردید کرتا ہے۔

یہ معاہدہ جو ایران، برطانیہ، جرمنی، فرانس، امریکا، روس اور چین کے درمیان ہوا تھا، ایک دہائی تک نافذ رہا، اس کا خاتمہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب چند ماہ قبل جب اسرائیل اور امریکا نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بمباری کی تھی۔

2006 سے 2010 کے درمیان سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کے تحت لگائی گئی اقوام متحدہ کی پابندیاں اتوار کو رات 12 بجے (جی ایم ٹی) دوبارہ نافذ ہو گئیں، نیویارک میں عالمی رہنماؤں کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ان پابندیوں میں تاخیر کی کوششیں ناکام رہیں۔

فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے پابندیوں کے نفاذ کے بعد اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ہم ایران اور تمام ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان قراردادوں پر مکمل عمل کریں۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کالاس نے بھی تصدیق کی کہ یورپی یونین اب فوراً تمام پہلے ختم کی گئی اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی ایٹمی پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرے گی۔

اسرائیل نے اپنے دیرینہ حریف پر دوبارہ پابندیاں لگنے کو ایک بڑا اقدام قرار دیا اور کہا کہ تہران اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔

ایران نے ان پابندیوں کو بلاجواز قرار دیا، ایرانی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ منسوخ شدہ قراردادوں کو دوبارہ فعال کرنا قانونی طور پر بے بنیاد اور ناقابلِ جواز ہے، تمام ممالک کو چاہیے کہ اس غیر قانونی صورتحال کو تسلیم کرنے سے گریز کریں۔

ایران نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے قومی حقوق اور مفادات کا مضبوطی سے دفاع کرے گا اور کسی بھی ایسی کارروائی کو جو ایرانی عوام کے حقوق اور مفادات کو نقصان پہنچائے گی، مناسب اور سخت جواب دیا جائے گا۔

ایران نے خبردار کیا ہے کہ پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کا سخت جواب دیا جائے گا، ہفتے کے روز تہران نے اعلان کیا کہ وہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں تعینات اپنے سفرا کو مشاورت کے لیے واپس بلا رہا ہے، تاہم ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ایران کا نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی (این پی ٹی) سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

روس نے بھی ان پابندیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ یہ غیر قانونی ہے اور اسے نافذ نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو بھی خط لکھا کہ اگر ان پابندیوں کو تسلیم کیا گیا تو یہ ’ایک بڑی غلطی‘ ہو گی۔

یورپی طاقتوں نے ایران کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ ایٹمی معائنہ کاروں کو دوبارہ رسائی دے، یورینیم کے ذخیرے پر خدشات دور کرے اور امریکا کے ساتھ مذاکرات کرے تو 6 ماہ کے لیے پابندیوں کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے کہا کہ پابندیوں کی بحالی سفارت کاری کا خاتمہ نہیں ہے، ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دوبارہ معاہدے کی پاسداری کرے۔

امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے کہ ایران کے ساتھ سفارت کاری اب بھی ایک آپشن ہے، اور نیا معاہدہ ہی ایران اور دنیا دونوں کے لیے بہترین نتیجہ ہے۔

تاہم انہوں نے زور دیا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایران نیک نیتی کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہو، اس وقت تک ممالک کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پابندیاں نافذ کریں تاکہ ایرانی قیادت پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔

یہ پابندیاں دراصل وہی ’اسنیپ بیک‘ اقدامات ہیں، جو 2015 میں معاہدے کے بعد منجمد کر دیے گئے تھے، جب ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر بڑی پابندیوں کو قبول کیا تھا۔

امریکا پہلے ہی وسیع پابندیاں عائد کر چکا تھا، جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

اس سال کے اوائل میں ایران اور امریکا کے درمیان عمان کی ثالثی میں کئی دور کے مذاکرات ہوئے تھے، لیکن جون میں یہ بات چیت اس وقت ختم ہو گئی، جب پہلے اسرائیل اور پھر امریکا نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کیے تھے۔

Comments are closed.