آزاد کشمیر میں رینجرز تعیناتی کی کوشش ناکام ، حکومت اور اپوزیشن قیادت کے مابین کشیدگی اور مذاکرات کا پس منظر
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
آزاد کشمیر میں پولیس کو ہٹاکر رینجرز تعینات کرنے کی مبینہ کوشش ناکام ہوگئی جس کی خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم انوار الحق اور وزیر داخلہ کرنل (ر) وقار نور نے عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف گرینڈ آپریشن کے لیے پولیس بدلنے کی سفارش کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی ایک اہم شخصیت کو بتایا گیا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ارکان جدید آتشیں اسلحے سے لیس ہیں اور پولیس اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی، اس کے بعد بعض انٹری پوائنٹس سے حکمتِ عملی کے تحت پولیس فورسیں ہٹائی گئیں۔
مسلم لیگ کی قیادت نے مبینہ حالات سے متعلق وزیر اعظم پاکستان کو آگاہ کیا جس کے بعد فوری نوٹس لیا گیا اور عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے تصادم کو روکنے اور بڑے خونریز واقعے سے بچانے کی کوششیں کی گئیں جن کے باعث متوقع فورس آپریشن روکا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے درمیان اختلافت نے مقامی سطح پر صورتحال کو پیچیدہ بنایا اور عوامی ایکشن کمیٹی کے آپشنز محدود ہو گئے۔
مبینہ طور پر عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات وقتی طور پر منظور نہ ہونے کے باوجود حکمتِ عملی کے تحت فیس سیونگ کے اقدامات زیرِ غور ہیں۔ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ درجنوں بےگناہ پولیس اہلکار اور شہریوں کی ہلاکتوں اور پانچ سو سے زائد زخمیوں کے اصل ذمہ دار کون ہوں گے اور کیا مقتولین کے ورثاء کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔
رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی سانحہ مظفرآباد کی طرز پر موقف اپنائے گی یا مقتولین کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ آئندہ 72 گھنٹوں کو انوار الحق، کرنل وقار نور اور دیگر مبینہ ملوث افراد کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کن قرار دیا جا رہا ہے۔ تاحال کسی سرکاری بیان یا متاثرہ فریق کی جانب سے باقاعدہ تصدیق عام نہیں ہوئی، اور انہیں حقِ جواب دینے کے لیے وقت دیا جانا چاہیے۔ اس واقعہ کے قانونی اور سیاسی مضمرات پر نظر رکھی جا رہی ہے اور متعلقہ حکام سے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
Comments are closed.