پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تیسری قسط کے حصول کی راہ میں پیش رفت، مگر چیلنجز برقرار

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تیسری قسط کے حصول کی راہ میں پیش رفت، مگر چیلنجز برقرار

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

پاکستان ایک ارب ڈالر سے زائد کی تیسری قسط حاصل کرنے کے لیے ایک بہتر پوزیشن میں دکھائی دیتا ہے، حالانکہ کچھ معاملات میں معمولی کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ پاکستانی حکام پیر کے روز بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دورہ کرنے والے جائزہ مشن کے ساتھ پالیسی سطح کے مذاکرات کا آغاز کر رہے ہیں۔

ذرائع  کے مطابق تکنیکی سطح کے مذاکرات مکمل ہو چکے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں فریقین کو پالیسی سطح کی بات چیت کے دوران کچھ نرمیوں پر متفق ہونا ہوگا، تاکہ رواں ہفتے کے آخر تک وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی قیادت میں جائزہ مکمل کیا جا سکے۔

اگرچہ بجلی کے شعبے نے گردشی قرضے میں کمی اور وصولیوں میں بہتری کے ذریعے غیر معمولی کارکردگی دکھائی ہے، جو کہ سبسڈی کی رقم کی منتقلی اور نئے قرضوں کے حصول سے ممکن ہوا، تاہم وفاقی محصولات اور صوبائی مالی کارکردگی میں کمزوری سامنے آئی ہے۔ خاص طور پر بجٹ سرپلس اور زرعی ٹیکس وصولی کے وعدے پورے نہیں کیے جا سکے۔

آئندہ چار دنوں میں اضافی اقدامات کی بدولت، اور سیلاب سے متعلق چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکنہ رعایتوں کے ساتھ، جائزے کے مکمل ہونے اور اگلی قسط کے اجراء کی راہ ہموار ہونے کی امید ہے۔ تاہم، اس کے لیے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری درکار ہوگی۔

بین الاقوامی سیاسی ماحول بھی پاکستان کے حق میں سازگار نظر آتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے بڑے ووٹنگ اراکین ملک کی حمایت کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور پنجاب و سندھ کی صوبائی حکومتیں اس وقت سخت جائزے کی زد میں ہیں۔

ایف بی آر رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 200 ارب روپے کے شارٹ فال کا شکار رہا ہے، جو کہ ماہانہ اوسطاً 65 ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔ حالانکہ ایف بی آر نے اصلاحاتی منصوبہ شروع کر رکھا ہے، مگر اس میں درجنوں نئی گاڑیاں خریدنے جیسے غیر ضروری اقدامات شامل ہیں، جن پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات سے حاصل ہونے والی ممکنہ ریکوریاں اس خسارے کو پورا کر سکیں گی، یا حکومت کو نومبر کے آغاز میں مزید اقدامات کرنے پڑیں گے۔

صوبائی سطح پر، پنجاب اور سندھ کی حکومتیں گزشتہ مالی سال کے اختتام پر اپنے کیش سرپلس وعدے پورے کرنے میں ناکام رہیں۔ خاص طور پر سندھ نے نئے مالی سال کے آغاز پر خسارے کا بجٹ پیش کیا، جو آئی ایم ایف کی توقعات کے برعکس ہے۔

اصلاحات میں تاخیر اور بجٹ وعدوں کی عدم تکمیل کی وجہ سے آئی ایم ایف نے دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس دباؤ کی جھلک پنجاب کے وزیراعلیٰ کے حالیہ بیان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف صوبے کے تمام مالی معاملات کا حساب مانگ رہا ہے۔

پنجاب کو مرکز کو 740 ارب روپے، سندھ کو 370 ارب، خیبرپختونخوا کو 220 ارب، اور بلوچستان کو 155 ارب روپے کا سرپلس دینا ہے۔ تاہم، سیلابی حالات کے باعث صوبوں کی کارکردگی اس سال بھی بہتر ہونے کا امکان کم ہے۔

زرعی آمدنی ٹیکس کے حوالے سے، اگرچہ تمام صوبوں نے بروقت قوانین منظور کیے تھے، لیکن ان پر عملدرآمد تاحال غیر یقینی ہے۔ خصوصاً پنجاب اور سندھ میں سیلابی تباہی نے عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ حکام کو ابھی تک یہ بھی اندازہ نہیں ہو سکا کہ متاثرہ علاقوں اور شعبوں کی بحالی کے لیے کتنے وسائل درکار ہوں گے۔

پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات میں گیس سیکٹر کے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے پر بھی بات چیت کی گئی، جو بجلی کے شعبے سے واجبات کی منتقلی کا نتیجہ ہے۔ دونوں فریقین اس حوالے سے نئے بینچ مارک، تعریفات اور رپورٹنگ کے طریقہ کار پر بات کر رہے ہیں۔

تاحال ریاستی ملکیت کے اداروں (ایس او ایز) سے متعلق قوانین پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ اس میں پاکستان ویلتھ فنڈ کے تحت اداروں کے انتظامی ڈھانچے، اور سرکاری اہلکاروں کے اثاثوں و منافعوں کے افشا جیسے مسائل شامل ہیں۔

آئی ایم ایف نے تیل صاف کرنے والی پرانی ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کے لیے ٹیکس میں رعایت کی حکومتی درخواست مسترد کر دی ہے، جس سے تقریباً چھ ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی ہے۔ آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ ایسی رعایتیں 1.4 ارب ڈالر کے ریسائلنس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلیٹی (آر ایس ایف) پروگرام کے اہداف کے منافی ہیں۔

ریفائنری اپ گریڈیشن کی پالیسی دو سال قبل نجی شعبے سے مشاورت کے بعد تیار کی گئی تھی اور معاہدوں پر دستخط کا مرحلہ قریب تھا، مگر حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ وعدے کے تحت ٹیکس چھوٹ دینے سے انکار کر دیا۔ پیٹرولیم ڈویژن کا مؤقف ہے کہ پرانی ریفائنریاں ماحولیاتی اور صحت کے لحاظ سے خطرناک ہیں، اور ان کی اپ گریڈیشن ناگزیر ہے۔

حکومت ایک طرف موسمیاتی منصوبوں کے لیے آر ایس ایف فنڈز حاصل کرنا چاہتی ہے، اور دوسری طرف اسے پرانی ٹیکنالوجی پر تنقید کا سامنا ہے۔ اس صورتحال کو بعض حکام آئی ایم ایف مذاکرات کاروں کی تکنیکی غلط فہمی اور وزارتِ خزانہ و ایف بی آر کے سخت مؤقف کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان نے جون 2025 تک زیادہ تر مقداری اہداف حاصل کر لیے ہیں، لیکن اشاریاتی اہداف اور ساختی شرائط پر عملدرآمد کی رفتار سست ہے، جو مستقبل میں پروگرام کی کامیابی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

چونکہ سات ارب ڈالر کے ای ایف ایف اور ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے آر ایس ایف کے چھ ماہ بعد باقاعدہ جائزے ہوتے ہیں، اس لیے دونوں فریقین کے لیے ماضی کی کارکردگی اور آئندہ حکمتِ عملی پر مکمل اتفاق ضروری ہے۔

Comments are closed.