سی ڈی اے کی پراپرٹی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ، رشوت کی شرح میں 500 گنا بڑھا، اصلاحات کی ضرورت

سی ڈی اے کی پراپرٹی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ، رشوت کی شرح میں 500 گنا بڑھا، اصلاحات کی ضرورت

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) میں پراپرٹی کی ٹرانسفر، وراثت چینج آف ٹائٹل، فیملی ٹرانسفر اور دیگر پروسیسنگ فیسوں میں ہزاروں سے لاکھوں روپے تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ اور حکومتی محکموں کے مطابق، اس اضافے کا مقصد سرکاری افسر شاہی کے عیاشیوں کو پورا کرنا اور حکومت کے خزانے میں اضافی آمدنی کا باعث بننا ہے۔ دوسری طرف، رشوت کی شرح میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سی ڈی اے کی فیملی ٹرانسفر کی فیس، جو پہلے صرف 5,000 روپے تھی، اب لاکھوں روپے تک پہنچ چکی ہے۔ اس اضافے کے سبب عوام میں بے چینی پھیل گئی ہے اور لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لیے ان نئی فیسوں کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں۔ سی ڈی اے کے عملے کے مطابق اس اضافے کا مقصد سرکاری خزانے کو فائدہ پہنچانا ہے، تاہم عوام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام عوامی مفاد میں نہیں بلکہ سرکاری افسران کی عیاشیوں کی تکمیل کے لیے ہے۔

سی ڈی اے میں رشوت کی شرح میں 500 گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ رشوت کے بغیر کوئی بھی کام مکمل نہیں ہوتا اور اس کے لیے افسران کو بڑی رقم دینی پڑتی ہے۔ کئی افراد نے شکایت کی کہ سی ڈی اے میں پراپرٹی ٹرانسفر یا دیگر قانونی امور کے لیے 6 ماہ یا اس سے زائد کا وقت لگتا ہے، جس کا سبب صرف رشوت کا مطالبہ اور غیر ضروری تاخیر ہے۔

اس پیچیدہ اور طویل عمل سے عوام کو نجات دلانے کے لیے ایک بڑا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ سی ڈی اے کی تمام پراسیس کو SECP, FBR, اور HEC کی طرز پر ڈیجیٹلائز کیا جائے۔ ان اداروں کی طرح سی ڈی اے کی پراسیس بھی شفاف اور تیز بنائی جا سکتی ہے، تاکہ رشوت کا خاتمہ اور وقت کی بچت ہو سکے۔

مزید برآں، سی ڈی اے کے عملے کی ڈاؤن سائزنگ کی ضرورت ہے۔ سی ڈی اے میں 20,000 سے زائد غیر ضروری ملازمین موجود ہیں، جن کی جگہ 500 اہل افراد سے کام لیا جا سکتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف رشوت کے مواقع کم کرے گا بلکہ پروسیسنگ کو بھی تیز تر بنائے گا، جیسا کہ پرائیویٹ سوسائٹیوں میں ہوتا ہے جہاں یہ تمام کام 30 منٹ میں مکمل ہو جاتے ہیں۔

سی ڈی اے کے پیچیدہ اور وقت طلب پروسیس کے سبب بہت سے لوگ اب پرائیویٹ سوسائٹیوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں، جہاں پراپرٹی کی ٹرانسفر اور دیگر معاملات بہت تیز اور باعزت طریقے سے نمٹائے جاتے ہیں۔ سی ڈی اے کے نظام سے تنگ آ کر عوام اکثر کہتے ہیں کہ وہ آئندہ کبھی بھی سی ڈی اے میں پراپرٹی خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

اگر سی ڈی اے میں اصلاحات کی جائیں اور اس کی پروسیسنگ کو ڈیجیٹلائز کیا جائے تو نہ صرف رشوت کا خاتمہ ہوگا بلکہ عوام کو سہولت حاصل ہو گی۔ اس کے علاوہ، کم عملے سے زیادہ مؤثر کام لیا جا سکے گا اور سی ڈی اے کے عملے کی غیر ضروری تعداد میں کمی آئے گی، جس سے سرکاری خزانے پر بوجھ کم ہو گا۔

سی ڈی اے کے نظام میں اصلاحات لانا نہ صرف عوام کے مفاد میں ہوگا بلکہ یہ پاکستان کی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ اگر یہ اقدامات جلد از جلد کیے جائیں، تو یہ پاکستانی عوام کے لیے ایک نیا اور بہتر دور ثابت ہو سکتا ہے۔

Comments are closed.