ڈگری یا صلاحیت؟ معیارِ تعلیم اور قومی معیشت کا سوال

ڈگری یا صلاحیت؟ معیارِ تعلیم اور قومی معیشت کا سوال

(ڈاکٹر علمدار حسین ملک)
dralamdarhussainmalik@gmail.com

کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد تعلیم پر رکھی جاتی ہے اور اس تعلیم میں سب سے اہم مرحلہ انڈرگریجویٹ سطح ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب نوجوانوں کی سوچ اور مستقبل کا تعین ہوتا ہے، ان کی شخصیت ڈھلتی ہے اور ان کے اندر وہ ہنر پیدا ہوتا ہے جو آگے چل کر انہیں سائنس دان، انجینئر، ڈاکٹر، ماہرینِ معیشت اور قومی رہنما بننے کے قابل بناتا ہے۔

اگر اس مرحلے پر تعلیم کا معیار بلند ہو تو طلبہ نہ صرف ڈگری حاصل کرتے ہیں بلکہ وہ عملی زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے اور معاشرے کو آگے بڑھانے کی صلاحیت بھی پیدا کرتے ہیں۔ لیکن اگر انڈرگریجویٹ تعلیم کمزور بنیادوں پر استوار ہو تو نوجوان ڈگری یافتہ تو بن جاتے ہیں مگر وہ علم اور ہنر سے محروم رہتے ہیں، جس کا نقصان براہِ راست قومی ترقی کو اٹھانا پڑتا ہے۔

تعلیم کے معیار کا مطلب صرف نصاب یا استاد کی دستیابی نہیں بلکہ ایک جامع نظام ہے جس میں میرٹ پر مبنی داخلے، طلبہ کی صلاحیت اور رجحان کا درست انتخاب، جدید نصاب، تحقیق اور عملی تربیت کے مواقع شامل ہیں۔ معیاری تعلیم وہ ہے جو طلبہ کو سوچنے، سوال کرنے اور تحقیق کرنے کی جرات دے اور انہیں مسائل کا عملی حل تلاش کرنے کے قابل بنائے۔ اگر نصاب فرسودہ ہو، داخلے غیر معیاری ہوں اور عملی تربیت کا فقدان ہو تو ڈگری یافتہ نوجوان تو پیدا ہوتے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں ہنر مند اور باصلاحیت افراد پیدا نہیں ہو پاتے۔ یہی فرق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

دنیا کی کامیاب مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ چین نے گزشتہ تین دہائیوں میں انڈرگریجویٹ سطح پر نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق بنایا، یونیورسٹیوں کو صنعت سے جوڑا اور تحقیق کو لازمی قرار دیا۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ بھارت نے انجینئرنگ اور آئی ٹی پروگرامز پر سرمایہ کاری کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی گریجویٹس عالمی سطح پر نمایاں ہیں اور ملک کی معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ یورپی ممالک اور امریکہ میں میرٹ، جدید نصاب اور تحقیق کو بنیاد بنایا گیا اور یہی عوامل ان کو عالمی معیشت کی قیادت کے قابل بناتے ہیں۔

پاکستان کا منظرنامہ ان مثالوں سے مختلف ہے۔ اقتصادی سروے پاکستان 2024-25 کے مطابق ملک میں 269 جامعات ہیں، جن میں اعلیٰ تعلیم کے مختلف پروگرامز میں داخلہ لینے والے طلبہ کی مجموعی تعداد تقریباً 1.94 ملین ہے۔ بائیس کروڑ کی آبادی کے مقابلے میں یہ تعداد نہایت ناکافی ہے۔ مزید یہ کہ میرٹ اور اپٹیٹیوڈ ٹیسٹ کے بغیر داخلے، فرسودہ نصاب اور تحقیق کی غیر موجودگی نے ہمارے فارغ التحصیل نوجوانوں کو عالمی معیار سے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ نہ نئی صنعتیں قائم کر پاتے ہیں اور نہ ہی عالمی منڈی میں مسابقت کر سکتے ہیں۔ یہ کمی براہِ راست معیشت پر اثر ڈال رہی ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے، صنعتوں کو ہنرمند افراد نہیں ملتے اور ملکی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے سے قاصر ہیں۔

یہ مسئلہ زراعت اور لائیوسٹاک جیسے اہم شعبوں پر بھی اثر انداز ہوا ہے۔ پاکستان میں مویشیوں کی آبادی تقریباً 220 ملین ہے، مگر ویٹرنری تعلیم کا معیار اتنا کمزور ہے کہ ہم اب تک فٹ اینڈ ماؤتھ ڈیزیز جیسی بیماری کے لیے مقامی ویکسین تیار نہیں کر سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ صرف اسی بیماری کی وجہ سے قومی معیشت کو سالانہ تقریباً 200 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پنجاب لائیوسٹاک ڈیپارٹمنٹ کی ایک تحقیق کے مطابق فٹ اینڈ ماؤتھ ڈیزیز سے براہِ راست اور بالواسطہ نقصانات کا مجموعی تخمینہ 5 سے 6 بلین امریکی ڈالر سالانہ ہے۔ اگر ویٹرنری سائنس کے انڈرگریجویٹ پروگرامز میرٹ پر مبنی ہوتے اور تحقیق و عملی تربیت کو اہمیت دی جاتی تو آج پاکستان ڈیری ویلیو ایڈیشن کے ذریعے اربوں ڈالر کما رہا ہوتا۔ اس کے برعکس معیار کی کمی نے ڈیری مصنوعات کی برآمدات پر عالمی سطح پر پابندیاں لگوا دیں اور ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔

یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ انڈرگریجویٹ تعلیم اور معیشت ایک دوسرے سے براہِ راست جڑے ہوئے ہیں۔ جب تک پاکستان میرٹ اور اہلیت کو داخلوں کی بنیاد نہیں بناتا، نصاب کو جدید نہیں کرتا اور تحقیق کو قومی ترجیح نہیں بناتا، تب تک ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ دنیا کی کامیاب مثالیں ہمیں واضح پیغام دیتی ہیں کہ اگر انڈرگریجویٹ تعلیم کا معیار بلند کیا جائے تو صنعت، زراعت اور معیشت میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر ڈگریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد محض کاغذی کارکردگی ہی ثابت ہوگی۔

Comments are closed.