فوڈ اتھارٹیز کا احتساب ۔ تاخیر اب جرم ہے ، ڈاکٹر علمدار حسین ملک

فوڈ اتھارٹیز کا احتساب — تاخیر اب جرم ہے

تحریر: ڈاکٹر علمدار حسین ملک

dralamdarhussainmalik@gmail.com

پاکستان میں خوراک کا نظام آج ایک قومی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جن اداروں پر عوام کی صحت کی حفاظت کا فریضہ تھا، وہ خود عوامی بیماری کے ذمہ دار بن چکے ہیں۔ دودھ، گھی، تیل، مصالحے اور دیگر اشیائے خور و نوش میں ہر روز ایسی ملاوٹ ہو رہی ہے جو انسانی جسم کے لیے زہر کے مترادف ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی، سندھ فوڈ اتھارٹی، خیبرپختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی اور بلوچستان فوڈ اتھارٹی — یہ تمام ادارے جو عوامی زندگیوں کے محافظ ہونے چاہییں تھے، بدعنوانی، سیاسی دباؤ اور انتظامی نااہلی کے باعث اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ محض غفلت نہیں بلکہ ایک قومی جرم ہے، جو روزانہ لاکھوں پاکستانیوں کی صحت، زندگی اور مستقبل کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

ملک کی مارکیٹوں میں ہر طرف زہر کا کاروبار جاری ہے۔ دودھ میں کیمیکل، گھی میں جانوروں کی چربی، مصالحہ جات میں رنگ اور مٹی کے ذرات، تیل میں غیر معیاری اجزاء — یہ سب عوام کی روزمرہ خوراک کا حصہ بن چکے ہیں۔ ذمہ دار ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، اور افسران صرف رپورٹیں لکھ کر اپنی ذمہ داری پوری سمجھتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف سنگین غفلت بلکہ عوامی صحت کے خلاف براہ راست جرم ہے۔

پاکستان میں خوراک کے کاروبار پر قانون موجود ہے، مگر عملدرآمد کے ذمہ دار ادارے — وزارتِ قومی صحت، وزارتِ صنعت و پیداوار، صوبائی فوڈ اتھارٹیز اور ضلعی انتظامیہ — سب اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ نگرانی کرنے والے اکثر خود مفاد پرستی کے کھیل میں شریک ہیں، اور اس کا خمیازہ عام شہری، بچے اور بزرگ بھگت رہے ہیں۔ بچوں کی نشوونما متاثر ہو رہی ہے، بزرگوں کی صحت بگڑ رہی ہے، اور نوجوانوں کی جسمانی طاقت کمزور ہو رہی ہے۔ یہ ایک سنجیدہ عوامی صحت کا بحران ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے تقابل کیا جائے تو پاکستان کی حالت انتہائی شرمناک ہے۔ یورپ، امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ میں خوراک کی حفاظت ریاستی ترجیح ہوتی ہے۔ وہاں ہر قدم پر خوراک کے معیار کی سخت نگرانی کی جاتی ہے اور معمولی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے، سزا اور کاروباری اجازت نامے کی منسوخی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر خوراک کے قوانین تو موجود ہیں، مگر عملدرآمد، نگرانی اور احتساب کا کوئی فعال نظام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی صحت مسلسل خطرے میں ہے اور ہر روز لاکھوں شہری زہریلے کھانوں کے خمیازے بھگت رہے ہیں۔

وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پورے ملک کے لیے متحدہ قانون نافذ کرے، صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے، لیبارٹریوں کے معیار کو بہتر بنائے، درآمد شدہ خوراک کی نگرانی کرے اور ایک مضبوط قومی جانچ اتھارٹی قائم کرے۔ قوانین بنانا کافی نہیں، ان پر سختی سے عملدرآمد اور مستقل نگرانی ریاست کا آئینی فرض ہے۔

یہ بحران صرف آج کا مسئلہ نہیں بلکہ دہائیوں کی لاپرواہی اور ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ دودھ میں مضر صحت کیمیکل، فارملین، گھی میں جانوروں کی غیر معیاری چربی، ناقص تیل اور مصالحے نہ صرف انسانی جگر، گردے، دل اور دماغ کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ نسلوں کی صحت اور معیشت کو بھی برباد کر رہے ہیں۔ عوامی صحت کے اس بحران کا اثر ہر گھر، ہر خاندان اور ہر معاشرتی طبقے پر محسوس کیا جا رہا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ان اداروں کو رعایت دیے جانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ جن افسران اور مالکان نے عوام کو بیمار اور ملک کو کمزور کیا ہے، ان کے نام، عہدے اور جرائم عوام کے سامنے لائے جائیں۔ فوری کارروائی نہ کی گئی تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ بزرگوں کی بگڑتی صحت، بچوں کی کمزور نشوونما اور نوجوانوں کی جسمانی زوال — یہ سب فوڈ اتھارٹیز اور وفاقی حکومت کی پالیسی ناکامیوں کا براہِ راست نتیجہ ہیں۔

اب پردہ پوشی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ جنہیں عوام کی صحت کی حفاظت سونپی گئی تھی، وہی آج عوام کی بیماری کے ذمہ دار ہیں۔ ان کا سخت احتساب ناگزیر ہے — کیونکہ تاخیر اب جرم بن چکی ہے۔

Comments are closed.