“آوارہ کتوں کے لیے رحم، مگر انسانوں کے لیے خاموشی؟ عدالتوں کے متضاد رویے پر سوالات اٹھنے لگے”
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے آوارہ کتوں کے تحفظ کے لیے دیے گئے حالیہ احکامات نے جہاں جانوروں کے حقوق کے لیے ایک مثبت پیغام دیا ہے، وہیں اس کے ساتھ انسانی حقوق، خاص طور پر ماورائے عدالت قتل، پولیس تشدد، اور ریاستی جبر جیسے سنگین مسائل پر عدالتی خاموشی پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔
مارچ 2025 میں لاہور ہائیکورٹ نے ایک اہم فیصلے میں پنجاب حکومت کو حکم دیا کہ آوارہ کتوں کو گولی مارنے یا زہر دینے جیسے طریقوں کے بجائے “انسانی بنیادوں پر قابو پانے کی پالیسی” اپنائی جائے۔ عدالت نے واضح کیا کہ کتوں کو پکڑ کر ویکسینیٹ کیا جائے، نیوٹر کیا جائے، اور انہیں مارنے کے بجائے دوبارہ چھوڑا جائے۔
اسی نوعیت کا ایک اور فیصلہ مئی 2025 میں سامنے آیا، جس میں عدالت نے قرار دیا کہ صرف وہی جانور جو شدید زخمی یا ناقابلِ علاج ہوں، انہیں طبی ماہرین کی اجازت سے ہمدردانہ طریقے سے مارا جا سکتا ہے۔
ان فیصلوں کو جانوروں کے حقوق کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، اور پاکستان میں جانوروں کے تحفظ کے لیے ایک نئے عدالتی رجحان کی نشاندہی بھی ہو رہی ہے۔
اس عدالتی ہمدردی کے برعکس انسانی حقوق کی پامالیوں پر عدالتوں کی خاموشی نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی 2024 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ملک بھر میں پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں 500 سے زائد شہری ہلاک ہوئے، جن میں سے بیشتر کے کیسز تاحال عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں یا بالکل بھی نہیں سنے گئے۔
ان میں شامل کئی کیسز میں متاثرین کے لواحقین نے انصاف کے حصول کے لیے سالوں انتظار کیا، مگر نہ تو ازخود نوٹس لیے گئے، نہ ہی عدالتی کارروائیاں تیز ہو سکیں۔
یہ تضاد عام شہریوں میں احساسِ محرومی پیدا کر رہا ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ جب جانوروں کے تحفظ کے لیے عدالتی مشینری فوری حرکت میں آ سکتی ہے، تو پھر شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر یہ خاموشی کیوں؟
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتوں کی ترجیحات میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ جانوروں کے حقوق پر فیصلے نسبتاً غیر متنازع سمجھے جاتے ہیں، جن پر ریاستی ادارے مزاحمت نہیں کرتے، جبکہ انسانی حقوق کے مقدمات اکثر سیکیورٹی، سیاست یا طاقتور اداروں سے جڑے ہوتے ہیں، جو عدالتی مداخلت کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنان اور وکلاء برادری نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالتیں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگی، اور پولیس تشدد جیسے سنگین معاملات پر ازخود نوٹس لیں ۔ انسانی جانوں کے تحفظ کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی جانوروں کو دی جا رہی ہے۔ عدلیہ، پارلیمان اور حکومت مل کر انصاف کے دوہرے معیار کو ختم کرنے کے لیے مربوط پالیسی بنائیں۔
جانوروں کے لیے عدالتی ہمدردی قابلِ تحسین سہی، مگر جب عام شہری اپنی جان کے تحفظ کے لیے بھی عدالتی رحم کے منتظر ہوں، تو یہ انصاف کے نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ عدلیہ کو چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرے اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر بھی وہی حساسیت اور سرعتِ عمل دکھائے جو جانوروں کے حقوق کے لیے ظاہر کی جا رہی ہے۔
Comments are closed.