ویٹرنری سائنسز کی تعلیم: معیار، ضرورت اور زمینی حقیقت ، ڈاکٹر علمدار حسین ملک

ویٹرنری سائنسز کی تعلیم: معیار، ضرورت اور زمینی حقیقت

تحریر: ڈاکٹر علمدار حسین ملک
dralamdarhussainmalik@gmail.com

پاکستان میں ویٹرنری سائنسز کی تعلیم ماضی میں ایک باوقار اور تحقیق پر مبنی شعبہ سمجھا جاتا تھا، مگر آج یہ حقیقت کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ اس شعبے کا معیار، عملی تربیت اور پیشہ ورانہ تیاری اُس تیزی سے زوال کا شکار ہے جس سے نہ صرف طلبا کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے بلکہ سرکاری اور نجی اداروں کی عملی ضروریات بھی پوری نہیں ہو رہیں۔

ملک بھر میں ویٹرنری یونیورسٹیوں اور کالجوں کی تعداد ضرور بڑھی ہے، لیکن معیار اور مواد میں یکسانیت نہیں۔ بیشتر ادارے محض ڈگری جاری کرنے کے مراکز بن چکے ہیں جہاں عملی تربیت، کلینیکل مہارت اور جدید تحقیق کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ نتیجتاً طلبا فارغ التحصیل تو ہو جاتے ہیں مگر میدانِ عمل میں قدم رکھتے ہی انہیں پتہ چلتا ہے کہ نہ وہ جدید تشخیصی آلات سے مانوس ہیں، نہ تحقیقی طریقوں سے، اور نہ ہی فارمنگ و پالیسی سازی کے تقاضے سمجھتے ہیں۔

حکومتی محکموں کو آج ایسے ویٹرنری افسران درکار ہیں جو صرف علاج نہ جانتے ہوں بلکہ پالیسی، منصوبہ بندی، فیلڈ سرویلنس، ڈیٹا اینالیسز اور فوڈ سیفٹی جیسے نئے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہوں۔ مگر بدقسمتی سے ہماری جامعات اب بھی پرانے نصاب، غیر مؤثر تدریسی طریقوں اور فرسودہ لیبارٹری نظام پر انحصار کر رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ حکومت کو تجربہ کار عملہ درکار ہوتا ہے جبکہ ادارے کم تربیت یافتہ گریجویٹس فراہم کرتے ہیں۔

نجی شعبہ — چاہے وہ ڈیری انڈسٹری، پولٹری، فیڈ ملز یا ویٹرنری فارماسیوٹیکل کمپنیاں ہوں — آج جدید تحقیق، معیاری فارمنگ اور ویلیو چین مینجمنٹ پر زور دے رہا ہے۔ انہیں ایسے پروفیشنلز چاہیے جو ٹیکنالوجی، حیاتیاتی سائنس اور مارکیٹ کی حرکیات کو سمجھتے ہوں۔ لیکن ہماری یونیورسٹیاں تاحال روایتی طرزِ تدریس میں بند ہیں، جہاں عملی تجربے کے بجائے تھیوری کی رٹ پر زور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی شعبہ اکثر بیرونِ ملک تربیت یافتہ ماہرین کو ترجیح دیتا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ویٹرنری تعلیم کو محض جانوروں کے علاج تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے قومی معیشت، فوڈ سیکیورٹی اور پبلک ہیلتھ سے جوڑا جائے۔ اس کے لیے نصاب کی ازسرِ نو تشکیل، فیلڈ انٹرن شپ اور تحقیقی پراجیکٹ کو لازمی قرار دینا، جامعات اور حکومتی محکموں کے درمیان براہِ راست اشتراک قائم کرنا، اساتذہ کی مسلسل تربیت اور نجی شعبے کو نصاب سازی میں شریک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ طلبا براہِ راست روزگار کے قابل بن سکیں۔

عملی اور کلینیکل مہارت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ویٹرنری تعلیم میں میڈیکل ایجوکیشن کے طرزِ تعلیم کو اپنایا جائے، اور تیسرے سال سے ہی طلبا کو فیلڈ اور کلینیکل پریکٹس میں شامل کیا جائے۔ موجودہ نظام میں دسویں سمسٹر میں محض چھ ماہ کی انٹرن شپ ایک رسمی کارروائی بن چکی ہے جو عملی صلاحیت پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظام کو مؤثر بنانے کے لیے “ویٹرنری ایجوکیشن ریگولیشنز 2001ء” میں ترمیم ناگزیر ہو چکی ہے تاکہ تربیتی معیار کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے۔

ویٹرنری سائنسز محض جانوروں کی بیماریوں کا علاج نہیں بلکہ یہ ایک قومی اقتصادی ستون ہے جو خوراکی سلامتی، دیہی خوشحالی اور عوامی صحت سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں مویشی پال کسانوں اور دیہی معیشت کا دارومدار اس شعبے کی کارکردگی پر ہے۔ اگر ویٹرنری تعلیم کے معیار اور معیارِ تربیت کو بین الاقوامی سطح کے مطابق بہتر بنایا جائے تو یہ شعبہ پاکستان کے لائیوسٹاک اور ڈیری سیکٹر — جس کا حجم تقریباً 1500 ارب روپے سے زائد ہے — میں نمایاں ترقی اور اضافی معاشی فوائد کا باعث بن سکتا ہے۔

مگر بدقسمتی سے ہماری پالیسی سازی، نصاب اور عمل درآمدی نظام میں وہ ربط موجود نہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں نظر آتا ہے۔ نتیجتاً، پالیسی کی کمزوری، ناقص گورننس اور غیر تربیت یافتہ افرادی قوت کے باعث ہر سال اربوں روپے کے معاشی نقصانات برداشت کیے جاتے ہیں — کبھی بیماریوں کی وباؤں سے، کبھی ناقص نسل کے جانوروں سے اور کبھی پیداوار میں کمی سے۔

یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ ویٹرنری تعلیم اور پالیسی میں سائنسی و عملی بنیادوں پر انقلابی تبدیلی نہ صرف تعلیمی معیار بلند کرے گی بلکہ حکومت کو ان معاشی نقصانات سے بھی بچائے گی جو غلط منصوبہ بندی اور کمزور عمل درآمد کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر جامعات، تحقیقی ادارے اور حکومتی محکمے مل کر تحقیق، پالیسی اور فیلڈ ورک میں ہم آہنگی پیدا کریں تو یہ تبدیلی لائیوسٹاک سیکٹر کی پیداواری استعداد میں اضافہ، دیہی روزگار کے فروغ، دودھ و گوشت کی پیداوار میں نمایاں بہتری اور برآمدات میں اضافہ کا باعث بنے گی۔

اس سمت میں پیش رفت بریڈ امپرومنٹ، بیماریوں کی روک تھام، جدید ویٹرنری ٹیکنالوجی، فوڈ سیکیورٹی اور پبلک ہیلتھ کے مربوط نظام کے قیام سے ممکن ہے۔ یہ اصلاحات نہ صرف پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنائیں گی بلکہ ملک میں ایک حقیقی سفید انقلاب کی بنیاد بھی رکھیں گی — ایسا انقلاب جس سے گوشت کی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا، کسان خوشحال ہوں گے اور پاکستان علاقائی سطح پر لائیوسٹاک برآمدات کا مرکز بن سکے گا۔

Comments are closed.