اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ کے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرے ، عالمی عدالت انصاف
لندن
اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین قانونی ادارے، بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اسرائیل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غزہ کے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گیارہ ججوں پر مشتمل بینچ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور اس کے اداروں، بشمول قریب مشرق میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے)، کی جانب سے غزہ کی پٹی میں فراہم کی جانے والی امدادی کوششوں کی حمایت کرے۔
ججوں نے کہا کہ اسرائیل اپنے اس دعوے کو ثابت نہیں کر سکا کہ یو این آر ڈبلیو اے کے ایک بڑی تعداد میں ملازمین کا تعلق حماس سے ہے۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے کہا کہ اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ غزہ میں امداد کی ترسیل میں آسانی پیدا کرے اور فلسطینیوں کو بقا کے لیے ضروری ’ بنیادی ضروریات’ فراہم کرے۔
عالمی عدالت انصاف کا یہ وسیع فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب امدادی ادارے اس ماہ کے آغاز میں ہونے والی ایک نازک جنگ بندی کے بعد غزہ میں انتہائی ضروری انسانی امداد کو بڑھانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف کی ’ مشاورتی رائے’ قانونی طور پر پابند نہیں کرتی، لیکن عدالت کا کہنا ہے کہ اس کی ’ بڑی قانونی اہمیت اور اخلاقی اتھارٹی’ ہے۔
اسرائیل نے عدالتی کارروائی میں حصہ نہیں لیا، لیکن ایک اسرائیلی اہلکار نے سماعت سے قبل صحافیوں کو بتایا کہ یہ ’ بین الاقوامی قانون کا غلط استعمال’ ہے۔
اہلکار نے مزید کہا کہ اسرائیل ’ بین الاقوامی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کے ساتھ غزہ کے حوالے سے تعاون کرتا ہے، لیکن اسرائیل یو این آر ڈبلیو اے کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا۔’
عالمی عدالت انصاف کے صدر یوجی ایواساوا نے کہا کہ عدالت ’ اس دلیل کو مسترد کرتی ہے کہ یہ درخواست بین الاقوامی عدالتی عمل کا غلط استعمال اور اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہے۔’
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے ایک روز قبل، اقوام متحدہ کے عالمی ادارۂ خوراک (ڈبلیو ایف پی) کی مشرق وسطیٰ کی ترجمان عبیر عطفہ نے کہا تھا کہ جنگ بندی کے بعد سے تنظیم کے 530 ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں، ان ٹرکوں نے 6,700 ٹن سے زیادہ خوراک پہنچائی، جو ان کے مطابق ’ تقریباً 5 لاکھ افراد کے لیے دو ہفتوں کی خوراک کے لیے کافی ہے۔’
عبیر عطفہ نے کہا کہ اب روزانہ تقریباً 750 ٹن خوراک غزہ میں داخل ہو رہی ہے، جو جنگ بندی سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہے، لیکن اب بھی ڈبلیو ایف پی کے روزانہ 2 ہزار ٹن کے ہدف سے بہت کم ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ’مقامی آبادی کی بنیادی ضروریات پوری کرے، بشمول ان اشیاء کے جو ان کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔‘
عدالت نے مزید کہا کہ اسرائیل پر یہ ’ ذمہ داری’ بھی ہے کہ وہ ان اشیاء کی فراہمی میں رکاوٹ نہ ڈالے۔
عدالت نے یہ بھی یاد دہانی کرائی کہ بین الاقوامی قانون کے تحت بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ممنوع ہے۔
اقوام متحدہ نے عالمی عدالت انصاف سے درخواست کی تھی کہ وہ یہ واضح کرے کہ ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل کی کیا ذمہ داریاں ہیں، بالخصوص اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے حوالے سے، ’ جن میں فلسطینیوں کی بقا کے لیے درکار اشیاء کی بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنانا اور سہولت فراہم کرنا شامل ہے۔’
عالمی عدالت انصاف کے ججوں نے اپریل میں درجنوں ممالک اور تنظیموں سے ایک ہفتے تک شواہد سنے، جن میں زیادہ تر بحث یو این آر ڈبلیو اے کے کردار پر مرکوز تھی۔
عالمی عدالت انصاف کی سماعت کے دوران، ایک امریکی اہلکار نے یو این آر ڈبلیو اے کی غیرجانبداری پر ’ سنگین خدشات’ ظاہر کیے اور الزام لگایا کہ حماس نے اس ایجنسی کی سہولیات کو استعمال کیا۔
مریکی اہلکار جوش سیمنز نے کہا کہ اسرائیل پر ’ یو این آر ڈبلیو اے کو خصوصی طور پر انسانی امداد فراہم کرنے کی اجازت دینے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔’
Comments are closed.