عالمی بینک کا پاکستان کو اپنے 10 ترجیحی تجارتی معاہدوں کو ازسرِ نو متوازن بنانے کا مشورہ

عالمی بینک کا پاکستان کو اپنے 10 ترجیحی تجارتی معاہدوں کو ازسرِ نو متوازن بنانے کا مشورہ

واشنگٹن

عالمی بینک نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے 10 تجارتی شراکت داروں کے ساتھ موجود غیر متوازن ترجیحی تجارتی معاہدوں (پی ٹی اے) کو بہتر بنائے، مارکیٹ پر مبنی اور لچکدار زرِمبادلہ کی شرح کو یقینی بنائے اور توانائی و دیگر ان پٹ لاگتوں میں اصلاحات کے ذریعے گزشتہ تین دہائیوں سے گرتی ہوئی برآمدات کو دوبارہ فروغ دے کر پائیدار معاشی ترقی کو یقینی بنائے۔

اپنی پالیسی رپورٹ میں عالمی بینک نے مشاہدہ کیا کہ تقریباً تمام ممالک جنہوں نے تیز اور پائیدار معاشی ترقی حاصل کی، انہوں نے یہ کامیابی عالمی منڈیوں سے فائدہ اٹھا کر حاصل کی، لیکن پاکستان اس راستے پر چلنے میں ناکام رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برآمدات کا حجم 1990 کی دہائی میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 16 فیصد سے گھٹ کر 2024 میں صرف 10 فیصد کے قریب رہ گیا ہے، جب کہ برآمدات کا زیادہ تر انحصار کم قیمت والے ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات پر ہے، معاشی ترقی کا انحصار برآمدات میں پائیدار اضافے کے بجائے زیادہ تر قرضوں اور ترسیلاتِ زر پر مبنی کھپت پر رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی ) کی مداخلت کے بغیر ایک گہری اور فعال انٹربینک مارکیٹ کے قیام کی اجازت دی جائے جس میں برآمد کنندگان، درآمد کنندگان اور غیر ملکی سرمایہ کاروں سمیت مختلف مارکیٹ کھلاڑیوں کی زیادہ شمولیت ہو۔

عالمی بینک نے مزید کہا کہ انٹربینک مارکیٹ کے لین دین سے متعلق تفصیلی ڈیٹا، حجم اور شرکا کی معلومات عوامی سطح پر جاری کی جائے اور مرکزی بینک کی غیر ضروری مداخلت بتدریج ختم کی جائے تاکہ زرِمبادلہ کی شرح حقیقی طلب و رسد کی عکاسی کرے۔

رپورٹ کے مطابق جب معیشت میں تیزی آتی ہے تو درآمدات بڑھنے سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھ جاتا ہے، خاص طور پر جب شرحِ تبادلہ کو مصنوعی طور پر قابو میں رکھا جائے، جس کے نتیجے میں بار بار ادائیگیوں کے توازن کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ اس بوم اور بسٹ کے چکر نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچایا، نجی سرمایہ کاری کو محدود کیا اور طویل المدتی ترقی کی بنیادوں کو کمزور کیا ہے۔

مزید کہا گیا ہے کہ کمزور برآمدی کارکردگی کی بنیادی وجوہات میں پیداواری صلاحیت اور مسابقت کے سنگین مسائل شامل ہیں، مسخ شدہ پالیسیوں جیسے کہ بلند ٹیرف رکاوٹیں، زیادہ پیداواری لاگتیں اور صارفین کے لیے مہنگے نرخوں نے کاروباری لاگت میں اضافہ کیا اور کمپنیوں کو مقامی منڈیوں تک محدود کر دیا ہے۔

مزید یہ کہ کسٹمز مینجمنٹ اور لاجسٹکس کی لاگت بہت زیادہ ہے، جب کہ حکومت کی طرف سے بیرونی منڈیوں میں رسائی کے لیے دی جانے والی معاونت بھی ناکافی ہے، جس میں تجارتی معاہدوں پر گفت و شنید، معیار کے بین الاقوامی تقاضوں کی پاسداری کا نظام قائم کرنا اور بیرون ملک پاکستانی برآمدات کو فروغ دینا شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ان تمام عوامل نے تقریباً 60 ارب ڈالر کی ممکنہ برآمدات کو ’کھوئے ہوئے مواقع‘ میں تبدیل کر دیا ہے، اس تناظر میں عالمی بینک نے اصلاحات کے جامع پیکج کی سفارش کی ہے، جس میں ترجیحی اور آزاد تجارتی معاہدوں کو مزید گہرا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

عالمی بینک نے کہا کہ آزاد یا ترجیحی تجارتی معاہدے مسابقت اور منڈی تک رسائی کو مضبوط بنانے کے لیے نہایت اہم ہیں کیونکہ یہ تجارتی رکاوٹوں کو کم کرتے ہیں، کسٹمز، معیار اور سرمایہ کاری کے ضوابط جیسے تجارتی سہولت کاری کے مسائل حل کرتے ہیں، جس سے برآمد کنندگان کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا ہوتا ہے۔

تاہم پاکستان کے معاملے میں یہ معاہدے مؤثر ثابت نہیں ہوئے اور بہت سے مواقع ضائع ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس وقت صرف 10 تجارتی معاہدوں کا حصہ ہے، جن میں سے زیادہ تر سطحی ہیں اور محدود تعداد میں اشیا پر ٹیرف میں نرمی تک محدود ہیں۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومت مذاکراتی یونٹ کی صلاحیت بڑھانے کے لیے خصوصی تربیت فراہم کرے، برآمد کنندگان اور صنعتوں سے باقاعدہ مشاورت کو یقینی بنائے اور تجارتی معاہدوں کے نفاذ و کارکردگی کی نگرانی کے لیے نظام قائم کرے۔

عالمی بینک نے یہ بھی مشورہ دیا کہ پاکستان غیر روایتی منڈیوں (سب سہارا افریقہ اور لاطینی امریکا) میں برآمدی مواقع کے لیے موجودہ سطحی معاہدوں کو خدمات، سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل تجارت کے شعبوں تک توسیع دینے کے امکانات کا جائزہ لے۔

بینک نے حالیہ ٹیرف اصلاحات کا خیر مقدم کیا لیکن کہا کہ ان کے ساتھ ایک لچکدار زرِمبادلہ کی شرح، ایک فعال ایکسِم بینک آف پاکستان، مضبوط تجارتی سہولت کاری اور وسیع تر ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے تاکہ برآمدی مسابقت میں حقیقی بہتری لائی جا سکے۔

عالمی بینک نے مزید تجویز دی کہ نیشنل ٹیرف کمیشن کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ انسدادِ ڈمپنگ اور تلافی پر مبنی اقدامات کو مؤثر طریقے سے نافذ کر سکے، اور تجارتی مذاکراتی کوششوں کو اہم اور ابھرتی ہوئی منڈیوں کے ساتھ مزید ٹیرف کمی پر مرکوز کیا جائے۔

Comments are closed.