فائیو اسٹار ہوٹل نہیں، عملی عمل ضروری ، ڈاکٹر علمدار حسین ملک

فائیو اسٹار ہوٹل نہیں، عملی عمل ضروری: پاکستان میں ون ہیلتھ کی فوری ضرورت

ڈاکٹر علمدار حسین ملک

dralamdarhussainmalik@gmail.com

انسانی، حیوانی اور ماحولیاتی صحت کے تعلقات آج کے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ہیں۔ دنیا کے تقریباً 60 فیصد معروف انفیکشن اور ابھرتی ہوئی بیماریوں میں سے 75 فیصد سے زائد بیماریوں کا آغاز جانوروں سے ہوتا ہے، جن میں لائیو سٹاک، جنگلی حیات اور ماحولیاتی نظام شامل ہیں۔ ون ہیلتھ کا تصور سب سے پہلے 2004 میں عالمی ادارہ صحت، FAO اور WHO کے تعاون سے سامنے آیا، اور 2010 کے بعد مختلف ممالک نے اسے عملی شکل دینا شروع کیا۔ اس نظام کا مقصد انسانی اور حیوانی صحت کو مربوط کرنا ہے تاکہ zoonotic بیماریوں اور اینٹی مائیکروبیل مزاحمت (AMR) کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ پاکستان میں لاکھوں دیہی خاندان اپنی روزی، غذائی تحفظ اور آمدنی کے لیے لائیو سٹاک پر انحصار کرتے ہیں، جس سے انسان اور حیوان کے درمیان بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ نزدیکی اور اکثر غیر صحت مند تعامل، ناکافی ویٹرنری خدمات، کمزور نگرانی اور ادویات کے غیر مناسب استعمال نے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اس کے نتائج سنگین ہیں: لائیو سٹاک کا نقصان دیہی معیشت کو متاثر کرتا ہے، zoonotic بیماریوں سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے، حاملہ خواتین میں اسقاط حمل اور پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، اور ابھرتے ہوئے جراثیم نظامی خطرہ پیدا کر سکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی AMR اس بحران کو مزید پیچیدہ کر رہی ہے، جس سے آسانی سے علاج ہونے والی بیماری بھی جان لیوا بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک منظم ون ہیلتھ حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے۔

پاکستان میں انسانی اور حیوانی صحت کے درمیان غیر مؤثر رابطے کی وجہ سے خطرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ادویات کے بے ضابطہ استعمال، ناقص خوراک، آلودہ پانی، غیر معیاری لائیو سٹاک مارکیٹس اور انسانی و حیوانی سرگرمیوں کے بڑھتے ہوئے رابطے نے بیماریوں کے پھیلاؤ کو تیز کر دیا ہے۔ زیادہ تر دیہی علاقوں میں انسان اور جانور قریب رہتے ہیں، بنیادی صفائی اور ویکسینیشن کی سہولیات محدود ہیں، اور بیماریوں کی بروقت شناخت اور علاج کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاکھوں لوگ اپنے جانوروں کی صحت پر انحصار کرتے ہیں، اور اگر جانور بیمار ہوں تو انسانی صحت اور دیہی معیشت دونوں متاثر ہوتی ہیں۔

اب تک کچھ اقدامات کیے گئے ہیں۔ پاکستان نے AMR کے لیے قومی ایکشن پلان بنایا ہے اور بعض صوبائی سطح پر ویٹرنری اور صحت کے محکموں نے ورکشاپس اور تربیتی سیشن منعقد کیے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے اور ڈونر ایجنسیز، جیسے WHO اور FAO، فنڈز فراہم کر رہے ہیں اور تربیتی پروگرام بھی چل رہے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ پروگرام زیادہ تر اعلیٰ سطح کے اجلاسوں، رپورٹس اور سیمینارز تک محدود ہیں، جبکہ اصل اسٹیک ہولڈرز یعنی مقامی کمیونٹیز اور فیلڈ ویٹرنری تک رسائی بہت کم ہے۔ فنڈز اور وسائل اکثر صرف رپورٹنگ اور بین الاقوامی شراکت داری کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اور عملی زمین پر اثر بہت کم پڑتا ہے، جس سے عوامی صحت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

زیادہ تر ذمہ دار افراد بیوروکریسی سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے پاس عملی اور تکنیکی علم محدود ہے، اور اکثر کچھ عرصے بعد دوسرے عہدوں پر منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے مستقل قیادت اور عملی عمل درآمد کمزور رہتا ہے۔ ون ہیلتھ کے نفاذ میں صرف تربیت یافتہ، عملی اور تکنیکی ماہرین کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ اقدامات مؤثر ہوں اور خطرات کم ہوں۔

یہ بھی قابل تشویش ہے کہ ون ہیلتھ کی اہمیت حتیٰ کہ گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس میں بھی عام نہیں ہے۔ یونیورسٹیاں، وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) اور صوبائی HECs اس سلسلے میں ذمہ دار ہیں کہ نصاب میں ون ہیلتھ کو شامل کریں، تحقیق اور تربیت کے مواقع فراہم کریں اور نئی نسل کو عملی علم سے لیس کریں۔ اس ناکامی کی وجہ سے عملی عمل درآمد متاثر ہوتا ہے اور مستقبل کی نسلیں اس چیلنج کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔

خصوصاً DVM نصاب میں ون ہیلتھ کو لازمی شامل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ویٹرنری طلبہ کو ابتدائی سطح سے ہی zoonotic بیماریوں، انسانی اور حیوانی صحت کے تعلقات، بایوسیکیورٹی، ویکسینیشن، اور AMR کے اصولوں سے روشناس ہونا چاہیے۔ نصاب میں ون ہیلتھ کے ماڈیولز، عملی تربیت، انٹرن شپس، اور انسانی صحت کے اداروں کے ساتھ مشترکہ تربیتی سیشن شامل ہونے چاہیے تاکہ فارغ التحصیل ویٹرنری ڈاکٹر حقیقی دنیا میں وبائی بیماریوں کے خطرات کو سمجھ سکیں اور عملی اقدامات اٹھا سکیں۔ اگر DVM نصاب میں یہ شامل نہ ہو تو نہ صرف نئی نسل کی تربیت ناکافی رہے گی بلکہ ملک میں ون ہیلتھ کے نفاذ میں دیر اور غیر مؤثریت پیدا ہوگی۔

وفاقی حکومت کا کردار اس نظام میں بنیادی اور فیصلہ کن ہے۔ ایک نیشنل ون ہیلتھ سیکریٹریٹ قائم ہونا چاہیے جو نہ صرف قیادت فراہم کرے بلکہ صوبوں کے نفاذ کو مربوط کرے، فنڈز کی درست تقسیم کو یقینی بنائے اور عالمی اداروں کے ساتھ شراکت داری مضبوط کرے۔ وفاقی حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ صوبائی محکمے، یونیورسٹیاں، HECs اور ڈونر ایجنسیز عملی سطح پر کام کر رہے ہیں یا صرف سیمینارز اور رپورٹس تک محدود ہیں۔ وفاقی حکومت کے بغیر ایک مربوط نگرانی، ڈیٹا کا معیار، بروقت ردعمل اور عملی اقدامات ممکن نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ، وفاقی حکومت کو یہ ذمہ داری بھی اٹھانی چاہیے کہ فنڈز کا زیادہ تر حصہ حقیقی اسٹیک ہولڈرز کے لیے استعمال ہو، نہ کہ صرف اعلیٰ سطحی اجلاسوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں سیمینارز پر۔ یہ فیصلہ کن اقدام عوامی صحت کے خطرات کو کم کرنے اور ون ہیلتھ کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے۔

لائیو سٹاک، ویٹرنری اور انسانی صحت کے اسٹیک ہولڈرز کو عملی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ وہ بیماریوں کی بروقت شناخت، ویکسینیشن، بایوسیکیورٹی اور ادویات کے صحیح استعمال سے واقف ہوں۔ انہیں یہ بھی سمجھایا جانا چاہیے کہ ون ہیلتھ انسان، جانور اور ماحولیاتی صحت کو مربوط کرتا ہے، zoonotic بیماریوں اور AMR کے خطرات کم کرتا ہے، اور غذائی تحفظ اور معیشت کو محفوظ رکھتا ہے۔ عملی تربیت کے بغیر صرف قوانین یا ہدایات کافی نہیں، اور اکثر خطرات ان دیہی علاقوں میں بڑھ جاتے ہیں جہاں بنیادی معلومات اور سہولیات کی کمی ہے۔ ڈونر ایجنسیز جو اکثر سیمینارز فائیو اسٹار ہوٹلوں میں منعقد کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنے فنڈز حقیقی فارم سطح پر عملی تربیت کے لیے استعمال کریں۔

اگر فوری اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو انسانی جانیں، غذائی تحفظ، روزگار، معیشت اور ملک کی وبائی بیماریوں کے خلاف مزاحمت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ہر وباء، چاہے انسانی ہو یا حیوانی، ایک قومی خطرے کی علامت ہے۔ وقت ضائع کرنے کا حق پاکستان کی عوام کے پاس نہیں ہے۔ ون ہیلتھ کو فوری، عملی اور غیر مشروط ترجیح دی جانی چاہیے، ورنہ بیماریوں، AMR اور ناقص نگرانی کے خطرات عوامی صحت، غذائی تحفظ اور معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔

Comments are closed.