بھارت کا یکطرفہ فیصلہ خطرناک، سندھ طاس معاہدے کی معطلی علاقائی امن کے لیے خطرہ ، پاکستان

بھارت کا یکطرفہ فیصلہ خطرناک، سندھ طاس معاہدے کی معطلی علاقائی امن کے لیے خطرہ ، پاکستان

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

پاکستان نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدامات ’وسائل پر مبنی دباؤ ڈالنے‘ کی خطرناک مثال قائم کرتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے یہ بات سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق سفیر نے مشترکہ قدرتی وسائل کو ’ہتھیار‘ بنانے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش ظاہر کی اور اس کی مثال بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو قرار دیا۔

اپنے خطاب میں انہوں نے خبردار کیا کہ بھارتی اقدام سلامتی کونسل کے ہر رکن اور عالمی برادری کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’چھ دہائیوں سے زائد عرصے سے یہ معاہدہ تعاون کی ایک مثال رہا ہے، جس نے جنگ کے ادوار میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس کے پانی کی منصفانہ اور قابلِ پیش گوئی تقسیم کو یقینی بنایا‘۔

عاصم افتخار نے کہا کہ ’بھارت کا غیر قانونی اور یکطرفہ فیصلہ اس معاہدے کے متن اور روح دونوں کی خلاف ورزی ہے، ماحولیاتی نظام کو خطرے میں ڈالتا ہے، ڈیٹا کے تبادلے کو متاثر کرتا ہے اور لاکھوں افراد کی زندگیاں داؤ پر لگا دیتا ہے جو خوراک اور توانائی کے تحفظ کے لیے سندھ کے پانی پر انحصار کرتے ہیں‘۔

انہوں نے زور دیا کہ ’ایسے اقدامات صرف ایک ملک کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ بین الاقوامی آبی قوانین پر اعتماد کو کمزور کرتے ہیں اور دنیا کے دیگر خطوں میں وسائل کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی خطرناک مثال قائم کرتے ہیں‘۔

پاکستانی سفیر نے کہا کہ ’پاکستان کا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جو کسی فریق کو یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل کرنے یا اس میں تبدیلی کی اجازت دیتی ہو‘۔

انہوں نے معاہدے پر مکمل عمل درآمد اور قائم شدہ طریقہ کار کے ذریعے معمول کی بحالی پر زور دیا۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مشن کے مطابق سفیر عاصم افتخار احمد نے ماحولیات اور سلامتی کے باہمی تعلق کو اجاگر کیا اور پائیدار اور پیشگی امن سازی کے لیے نقطۂ نظر میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ تنازعات کی روک تھام، امن قائم رکھنے اور بعد از تنازع بحالی میں ماحولیاتی عوامل کو مربوط انداز میں شامل کرے۔

سفیر نے خبردار کیا کہ ’تنازع کے دوران ماحولیاتی تباہی محض ضمنی نقصان نہیں بلکہ عدم استحکام کا باعث بھی بنتی ہے‘۔

انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ’پاکستان اجتماعی اقدامات کے ذریعے ماحولیاتی بحالی، بین الاقوامی قانون پر عمل درآمد کے فروغ اور مشترکہ قدرتی وسائل کو تقسیم کے بجائے تعاون کے ذرائع میں تبدیل کرنے کے لیے پرعزم ہے‘۔

یاد رہے کہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 مغربی دریا پاکستان اور 3 مشرقی دریا بھارت کے حصے میں آئے تھے۔

2023 میں پاکستان نے بھارت کے ان آبی منصوبوں کے ڈیزائن کے خلاف دی ہیگ میں واقع مستقل ثالثی عدالت سے رجوع کیا تھا جو ان دریاؤں پر تعمیر کیے جا رہے تھے جو معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آتے ہیں۔

بھارت نے 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 افراد کی ہلاکت کا موجب بننے والے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت کے سندھ طاس معاہدے کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا، پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کو جنگی عمل قرار دیا تھا۔

جون میں مستقل ثالثی عدالت نے ’اختیارات کے ضمنی فیصلے‘ میں قرار دیا کہ بھارت کو معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔

بعد ازاں اگست میں عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسے اس تنازع پر مکمل دائرہ اختیار حاصل ہے اور معاہدہ بھارت کو مغربی دریاؤں پر ’ان کے انجینئرنگ کے بہترین اصولوں‘ کے مطابق پن بجلی منصوبے بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔

عدالت نے قرار دیا کہ ان منصوبوں کا ڈیزائن معاہدے میں دی گئی شرائط کے عین مطابق ہونا چاہیے، اور بھارت عام طور پر مغربی دریاؤں کے پانی کو پاکستان کے ’غیر مشروط استعمال‘ کے لیے رواں رکھنے کا پابند ہے۔

Comments are closed.