27ویں آئینی ترمیم ، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس اختیار ختم کرنے کی تجویز
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
ملک میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے متعلق مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے نکات سامنے آگئے ہیں، جن کے مطابق سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس کا اختیار ختم کر دیا جائے گا جبکہ ججز کے تبادلے سے متعلق ایک نیا نظام متعارف کرایا جائے گا۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی جس میں ہر صوبے سے برابر تعداد میں ججز شامل ہوں گے۔ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کا تقرر صدر مملکت کریں گے۔ صدر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کے ججز میں سے وزیراعظم کی ایڈوائس پر وفاقی آئینی کورٹ کا پہلا چیف جسٹس مقرر کرے۔ آئینی عدالت کے پہلے ججز کا تقرر بھی صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیف جسٹس فیڈرل آئینی کورٹ سے مشاورت کے بعد کرے گا۔
ترمیمی مسودے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا جائے گا۔ اگر کوئی جج تبادلہ قبول کرنے سے انکار کرے گا تو اسے ریٹائر تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح، اگر سپریم کورٹ کا کوئی جج وفاقی آئینی عدالت کا عہدہ قبول کرنے سے انکار کرے گا تو وہ بھی ریٹائر سمجھا جائے گا۔
مجوزہ ترامیم کے مطابق صدر اور گورنر کے خلاف فوجداری کارروائی سے متعلق اہم شقیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ صدر کے خلاف عمر بھر کے لیے کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہو سکے گی جبکہ گورنر کے خلاف ان کی مدتِ عہدہ کے دوران کارروائی نہیں ہو گی۔ مزید یہ کہ کوئی عدالت صدر یا گورنر کی گرفتاری یا جیل بھیجنے کا حکم جاری نہیں کر سکے گی۔
وفاقی آئینی عدالت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظرِثانی کر سکے۔ کسی بھی قانونی یا آئینی معاملے پر صدر مملکت، آئینی عدالت سے رائے طلب کر سکیں گے۔ ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کو رائے بھیجنے کی شق ختم کر دی گئی ہے۔
مجوزہ 27ویں ترمیم کے مطابق آئین کے آرٹیکل 184 (از خود نوٹس) کو بھی حذف کر دیا جائے گا، جبکہ آئینی عدالت کے ججز کی مدتِ ملازمت 68 سال مقرر کی گئی ہے۔ چیف جسٹس آئینی عدالت اپنی تین سالہ مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ صدر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی جج کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کریں۔
ترمیمی مسودے کے تحت آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی کیس کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کر سکے۔ مجوزہ قانون کے مطابق آئینی عدالت کے فیصلے پاکستان کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے، سوائے ان معاملات کے جن پر سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آچکا ہو۔
سیاسی و قانونی ماہرین کے مطابق یہ مجوزہ ترمیم پاکستان کے عدالتی ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے، جو اختیارات کی نئی تقسیم اور عدالتی نظام میں اہم اصلاحات کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
Comments are closed.