وزیراعظم کے حکم پر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے استثنیٰ کی مجوزہ ترمیم واپس لے لی گئی
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر وزارت عظمیٰ کے عہدہ کیلئے مجوزہ استثنی کی ترمیم واپس لے لی گئی، پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر انوشہ رحمٰن اور طاہر خلیل سندھو نے وزیراعظم کو استثنیٰ دینے کی تجویز جمع کرائی تھی۔
ذرائع کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس میں جاری پارلیمان کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وزارت عظمیٰ کے عہدہ کے لیے مجوزہ استثنیٰ کی ترمیم واپس لے لی گئی۔
ذرائع کے مطابق سینیٹر انوشہ رحمٰن نے وزیر اعظم کی ہدایت پر مجوزہ استثنیٰ کی تجویز واپس لی، جبکہ چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے ترمیم واپس لینے کو سراہا۔
ذرائع کے مطابق کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم کو استثنیٰ کی ترمیم سینیٹر انوشہ رحمٰن اور طاہر خلیل سندھو نے جمع کروائی تھی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ وزیر اعظم نے استثنی کی ترمیم واپس لینے کی ہدایت کی، دیگر عہدوں کو جو استثنی دیا جارہا ہے ان میں انتظامی نوعیت نہیں ہے، ابھی 80 سے 85 فیصد ترامیم پر مشاورت ہوچکی ہے، ایم کیو ایم،اے این پی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے تجاویز پر غور ہونا باقی ہے۔
وزیر قانون نے کہاکہ بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے سے متعلق تجویز پر ابھی غور ہوگا، جے یو آئی نے 3 دن کا وقت مانگا جو دینا ممکن نہیں تھا، مخالفت کرنی بھی ہے تو ووٹ سے کریں سیاست سے نہیں، نجی ترمیم پیش کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔
قبل ازیں وزیرِاعظم شہباز شریف نے 27ویں آئینی ترمیم میں وزیراعظم کو استثنیٰ دینے سے متعلق مسلم لیگ (ن) کی مجوزہ شق واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کو مکمل طور پر جوابدہ رہنا چاہیے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ آذربائیجان سے واپسی پر مجھے معلوم ہوا کہ ہماری جماعت کے چند سینیٹرز نے وزیراعظم کو استثنیٰ دینے سے متعلق ایک ترمیم جمع کرائی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’میں ان کے نیک ارادے کا احترام کرتا ہوں، مگر یہ تجویز کابینہ سے منظور شدہ مسودے کا حصہ نہیں تھی، میں نے اسے فوراً واپس لینے کی ہدایت کر دی ہے‘۔
شہباز شریف نے کہا کہ ’اصولی طور پر ایک منتخب وزیراعظم کو عدالتِ قانون اور عوام دونوں کے سامنے مکمل طور پر جوابدہ رہنا چاہیے‘۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹیاں 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ بل پر غور و خوض جاری رکھے ہوئے ہیں۔
27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ بل میں وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے قیام، ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی، صوبائی کابینہ کے ارکان کی حد میں اضافہ اور عسکری قیادت کے ڈھانچے میں ترمیم کی تجاویز شامل ہیں۔
بل کی چند شقوں میں ان افسران کو تاحیات آئینی تحفظ دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے جنہیں 5 اسٹار رینک یعنی فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا ایڈمرل آف دی فلیٹ کے عہدوں پر ترقی دی جائے۔
ان افسران کو ’ان کے رینک، مراعات اور وردی برقرار رکھنے کا حق تاحیات حاصل رہے گا‘ اور انہیں صرف آئین کے آرٹیکل 47 کے تحت مواخذے جیسی کارروائی کے ذریعے ہی برطرف کیا جا سکے گا۔
ایسے افسران کو وہی استثنیٰ حاصل ہوگا جو صدرِ مملکت کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت دیا گیا ہے۔
ہفتے کی دوپہر وفاقی کابینہ نے 27ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری دی اور اسے مکمل طور پر خوش آئند قرار دیا۔
بعد ازاں یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا، جہاں اپوزیشن کی جانب سے مجوزہ ترامیم کی وسعت اور تیزی پر شدید احتجاج کیا گیا۔
Comments are closed.