سی ڈی اے کا ’’آپریشن کلین اپ‘‘، 107 افسران برطرف، کرپشن کے خلاف سخت کارروائی
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ادارے کی تاریخ کی سب سے بڑی احتسابی کارروائی کرتے ہوئے گریڈ 19 تا 16 کے 107 افسران کو بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور محکماتی انکوائریوں میں مداخلت کے الزامات پر برطرف کر دیا ہے۔
یہ کارروائی چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کی ہدایت پر شروع کی گئی ’’آپریشن کلین اپ‘‘ مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد ادارے کو ’’کالی بھیڑوں‘‘ سے پاک کرنا اور ترقیاتی منصوبوں کو شفاف انداز میں مکمل کرنا ہے۔
ذرائع کے مطابق برطرف افسران طویل عرصے سے زیرِ نگرانی تھے اور باہمی تعاون سے ایک دوسرے کو ’’کلین چٹ‘‘ دلواتے یا انکوائریوں پر اثرانداز ہوتے رہے۔
چیئرمین رندھاوا نے تین ماہ قبل ممبر ایڈمنسٹریشن کو خفیہ طور پر ہدایت دی تھی کہ مشکوک شہرت کے حامل تمام افسران کی فہرست تیار کی جائے۔ فہرست کی تکمیل کے بعد چیئرمین نے اعلان کیا کہ ادارے میں ’’احتساب کی بنیاد‘‘ رکھ دی گئی ہے اور کسی بھی اہلکار کو شہریوں کے جائز کام میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
برطرف افسران میں کئی سینئر عہدے دار بھی شامل ہیں جن میں ڈائریکٹر لاء عبدالحکیم بریرو،ڈائریکٹر ٹریننگ اکیڈمی و لیبر ڈائریکٹر ممتاز علی شیر،ڈائریکٹر انفورسمنٹ و ایڈمن ایچ آر لاء،ڈپٹی ڈی جی (ایڈمن ایچ آر) میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کاشف شاہ،ڈائریکٹر سول رانا طارق محمود اور ایڈیشنل ڈائریکٹر ای اینڈ ڈی ایم و آپریشنز ظفر اقبال شامل ہیں
ذرائع کے مطابق سی ڈی اے کے لیگل ونگ کو تمام متعلقہ مقدمات کی پیروی کا ٹاسک دیا گیا ہے، جب کہ ماہر وکلاء کی خدمات حاصل کر کے اس یونٹ کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے۔
چیئرمین نے واضح کیا ہے کہ اگر برطرفی کے عمل میں جانبداری یا اقربا پروری ثابت ہوئی تو متعلقہ افسر کے خلاف بھی تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ترقیاتی منصوبوں میں تیزی، مگر E-12 بدستور محروم چیئرمین رندھاوا نے انجینئرنگ ونگ کو ہدایت دی ہے کہ سیکٹر C-14 کے تمام ترقیاتی کام آئندہ ماہ کے آخر تک اور سیکٹر I-12 کے منصوبے تین ماہ میں مکمل کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ زیرِ التواء منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل کرنا سی ڈی اے کی ساکھ بحال کرنے کے لیے ضروری ہے۔
ادارے نے دو خصوصی ورکنگ گروپس بھی تشکیل دیے ہیں — ایک جاری ترقیاتی منصوبوں کی رفتار بڑھانے کے لیے اور دوسرا پرانے سیکٹرز میں انفراسٹرکچر، لینڈ اسکیپنگ اور شہری سہولیات کی بحالی کے لیے۔
تاہم ان اقدامات کے باوجود سیکٹر E-12 بدستور نظرانداز ہے۔ یہ سیکٹر 1980 کی دہائی کے آخر میں الاٹ کیا گیا تھا مگر آج تک ترقیاتی کام شروع نہیں ہو سکے۔ ہزاروں الاٹیز دہائیوں سے پلاٹوں کے انتظار میں ہیں، جبکہ سی ڈی اے بارہا وعدوں کے باوجود منصوبہ شروع کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق پچھلی انتظامیہ نے میر آبادی میں شادی ہالز، ورکشاپس اور شورومز سمیت درجنوں غیر قانونی تعمیرات منہدم کیں، لیکن سری نگر ہائی وے کے ساتھ G-13 سے G-11 کے درمیان ناجائز تجاوزات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ صورتِ حال اس تاثر کو تقویت دیتی ہے کہ بعض بااثر عناصر اور سی ڈی اے کے اندر موجود اہلکاروں کے درمیان گٹھ جوڑ موجود ہے۔
اسی طرح مارگلہ ایونیو جو حال ہی میں تعمیر کی گئی تھی، اپنی ڈیفیکٹ لائیبلیٹی مدت میں ہی سڑک کی خرابیوں اور سیٹلمنٹ کا شکار ہے، مگر متعلقہ شعبہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق مارگلہ ایونیو ، موٹروے لنک روڈ بھی تشہیری بنیادوں پر مکمل کیا گیا اور اس کی فنی نگرانی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔
چیئرمین رندھاوا کا کہنا ہے کہ کرپشن کے خلاف یہ کارروائی ایک ’’مثالی مثال‘‘ کے طور پر دیکھی جائے گی اور کوئی افسر قانون سے بالاتر نہیں۔ انہوں نے ہدایت دی ہے کہ آئندہ کسی شہری کے کام میں بلاجواز رکاوٹ ڈالنے والے اہلکار کو ریٹائرمنٹ بینیفٹس کے بغیر برطرف کر دیا جائے گا۔
سی ڈی اے کے اندر ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کو ادارے کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا احتسابی اقدام قرار دیا جا رہا ہے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر ادارہ واقعی اپنی ساکھ بحال کرنا چاہتا ہے تو اسے E-12 جیسے پرانے سیکٹرز پر بھی عملی توجہ دینا ہوگی، جہاں شہری دہائیوں سے ترقیاتی وعدوں کے منتظر ہیں۔
Comments are closed.