ٹرمپ اور شامی صدر احمد الشراع کی تاریخی ملاقات ، شام کو کامیاب بنانے کا عزم
واشنگٹن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شامی صدر احمد الشراع سے تاریخی ملاقات کے بعد وعدہ کیا کہ وہ شام کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ احمد الشراع جو کبھی القاعدہ کے کمانڈر رہ چکے ہیں اور جن پر حال ہی تک واشنگٹن نے بطور غیر ملکی دہشت گرد پابندیاں عائد کر رکھی تھیں، کا امریکا کا یہ دورہ ایک غیر معمولی سال کے اختتام پر ہوا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں شام کے صدر احمد الشراع کے ساتھ وقت گزارنے کا اعزاز قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہم نے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کی، اور وہ اس مقصد کے بڑے حامی ہیں، میں ان سے دوبارہ ملاقات اور گفتگو کا منتظر ہوں۔
انہوں نے کہاکہ ’ہر کوئی اس عظیم معجزے کے بارے میں بات کر رہا ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں رونما ہو رہا ہے، ایک مستحکم اور کامیاب شام کا ہونا پورے خطے کے تمام ممالک کے لیے بے حد اہم ہے‘۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ وہی سال ہے جس میں سابق باغی رہنما نے طویل عرصے سے اقتدار پر قابض بشارالاسد کو معزول کیا اور اب وہ دنیا بھر کے دوروں پر جا کر خود کو ایک معتدل اور اتحاد کے خواہاں رہنما کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ اپنی جنگ زدہ قوم کو متحد کر سکیں اور اسے بین الاقوامی تنہائی سے نکال سکیں۔
واشنگٹن کے دورے کا ان کا بنیادی مقصد امریکا کی جانب سے عائد سخت ترین پابندیوں کے مکمل خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا، صدر ٹرمپ سے ان کی ملاقات بند دروازوں کے پیچھے ہوئی، تاہم اسی دوران امریکی محکمہ خزانہ نے اعلان کیا کہ انسانی بنیادوں پر دی جانے والی قیصر ایکٹ کی چھوٹ میں مزید 180 دن کی توسیع کر دی گئی ہے، لیکن ان پابندیوں کا مکمل خاتمہ صرف امریکی کانگریس ہی کر سکتی ہے۔
یہ کسی شامی صدر کا واشنگٹن کا پہلا دورہ تھا، ڈونلڈ ٹرمپ اور محمد الشراع کی پہلی ملاقات 6 ماہ قبل سعودی عرب میں ہوئی تھی، جہاں ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا، چند روز قبل ہی امریکا نے الشراع کا نام عالمی دہشتگردوں کی فہرست سے خارج کیا تھا۔
شامی صدر کا استقبال غیر روایتی تھا، احمد الشراع، جن کے سر کی قیمت کبھی ایک کروڑ ڈالر مقرر کی گئی تھی، کو وائٹ ہاؤس میں عام مہمانانِ ریاست کی طرح سرکاری پروٹوکول نہیں دیا گیا، وہ مرکزی دروازے کے بجائے ایک پہلو سے عمارت میں داخل ہوئے، اور صحافیوں کو ان کی صرف ایک جھلک دکھائی دی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے الشراع کو ’طاقتور رہنما‘ قرار دیا اور کہا کہ ’ہم شام کو کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے‘، تاہم انہوں نے احمد الشراع کے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب کا ماضی کڑا رہا ہے‘۔
احمد الشراع نے بعد میں فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ سے ان کی وابستگی ماضی کی بات ہے اور اس کا ذکر صدر ٹرمپ سے ملاقات میں نہیں ہوا، انہوں نے کہا کہ شام اب واشنگٹن کا جغرافیائی اتحادی ہے، خطرہ نہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے ’قیصر ایکٹ‘ پر عمل درآمد کی چھوٹ میں مزید 180 دن کی توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شام میں انسانی بنیاد پر امداد اور سرمایہ کاری کو سہولت فراہم کی جائے گی۔
43 سالہ احمد الشراع نے گزشتہ سال اقتدار سنبھالا تھا، جب ان کی اسلامی فورسز نے ایک تیز رفتار کارروائی میں شام کے دیرینہ حکمران بشارالاسد کو 8 دسمبر کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔
اس کے بعد شام نے برق رفتاری سے ایران اور روس سے فاصلہ بڑھایا اور ترکی، خلیجی ممالک اور اب امریکا کے قریب ہو گیا۔
ٹرمپ اور احمد الشراع کی ملاقات میں سیکیورٹی کے معاملات بھی اہم ایجنڈا تھے، ٹرمپ انتظامیہ شام کے عبوری دور کو مستحکم کرنے میں مدد دینے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے، امریکا شام اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ سیکیورٹی معاہدے پر بھی بات چیت کروا رہا ہے، حالانکہ اسرائیل اب بھی احمد الشراع کے عسکری ماضی پر محتاط ہے۔
رائٹرز کے مطابق امریکا دمشق کے ایک فضائی اڈے پر فوج کی تعینانی پر غور کر رہا ہے، شام کے وزیر اطلاعات کے مطابق، پیر کو شام نے امریکا کی زیر قیادت ’گلوبل کولیشن ٹو ڈیفیٹ اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ سیاسی تعاون کے اعلامیہ پر بھی دستخط کیے۔
ملاقات سے چند گھنٹے قبل ہی حکام نے گزشتہ چند ماہ میں داعش کی جانب سے احمد الشرع کو قتل کرنے کے 2 منصوبوں کو ناکام بنانے کا انکشاف کیا، وزارت داخلہ نے ہفتے کے اختتام پر ملک بھر میں داعش کے خفیہ نیٹ ورکس کے خلاف آپریشن شروع کیا، جس میں 70 سے زائد مشتبہ افراد گرفتار ہوئے۔
وائٹ ہاؤس میں احمد الشراع کے استقبال میں معمول کی شاندار تقریبات نہیں ہوئیں، عمومًا غیر ملکی سربراہان کے استقبال کے لیے عمارت کے باہر ان کے ملک کے جھنڈے لہراتے ہیں، مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔
ترکی کے وزیر خارجہ حکان فدان بھی اسی روز وائٹ ہاؤس میں موجود تھے اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ اور احمد الشرع کی ملاقات کے ایک حصے میں شامل ہوئے۔
ملاقات کے بعد ٹرمپ نے ریپبلکن رکنِ کانگریس مارجری ٹیلر گرین کی اس تنقید پر سخت ردعمل دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس کو ملکی معاملات پر توجہ دینی چاہیے، غیر ملکی رہنماؤں سے ملاقاتوں پر نہیں، ٹرمپ نے جواب میں کہا کہ ’میں صدارت کو ایک عالمی حیثیت میں دیکھتا ہوں، ہم ایک ایسی دنیا میں جی سکتے ہیں جو آگ کی لپیٹ میں آ جائے، جہاں جنگیں بہت آسانی سے ہمارے اپنے ساحلوں تک پہنچ سکتی ہیں‘۔
احمد الشراع نے وائٹ ہاؤس سے روانگی کے موقع پر باہر موجود حامیوں کی بھیڑ کو مختصراً ہاتھ ہلا کر جواب دیا، جن میں کئی افراد شامی پرچم لہرا رہے تھے۔
احمد الشراع اب امریکی ’قیصر ایکٹ‘ کے خاتمے کے لیے بھرپور مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ عالمی سرمایہ کاری کو شام کی تباہ شدہ معیشت کی بحالی کی جانب راغب کیا جا سکے، عالمی بینک کے مطابق ملک کی تعمیرِ نو کے لیے 200 ارب ڈالر سے زائد درکار ہوں گے۔
کانگریس کے کئی بااثر اراکین ان پابندیوں کے خاتمے کی حمایت کر رہے ہیں، تاہم بعض ریپبلکن اراکین اب بھی پابندیاں برقرار رکھنے کے حامی ہیں، تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ٹرمپ دباؤ ڈالیں تو صورتحال بدل سکتی ہے۔

Comments are closed.