سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 27 ویں ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 27 ویں ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 27ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، عدالتِ عظمیٰ سے درخواست کی کہ وہ مجوزہ ترمیم کی آئینی اور قانونی حیثیت کا تعین کرنے کا خصوصی اختیار اپنے پاس برقرار رکھے۔

سابق چیف جسٹس منگل کو یہ درخواست وکیل خواجہ احمد حسین کے ذریعے دائر کی ، جس میں عدالتِ عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے کسی بھی ایسے ایکٹ یا 27ویں آئینی ترمیم کی ان شقوں کو کالعدم یا معطل قرار دے، جو سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات میں کمی یا ان کی تنسیخ کا باعث بنیں یا ان اختیارات کو کسی دوسرے ادارے یا عدالت کو منتقل کرنے کی کوشش کریں۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ 27 ویں ترمیم کی وہ شقیں بھی ختم کی جائیں جو ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے سے متعلق ہیں، اور اس حوالے سے حتمی فیصلے تک فوری طور پر حکمِ امتناع جاری کیا جائے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے یہ درخواست اس لیے دائر کی ہے تاکہ سپریم کورٹ کو بچایا جا سکے، جو ان کے مطابق آئینی عدالت کے طور پر اپنے خاتمے کے دہانے پر ہے۔

درخواست گزار کے مطابق، عدالتِ عظمیٰ کو یہ درخواست فوراً سننی چاہیے کیونکہ دائر کیے جانے کے وقت سپریم کورٹ ابھی تک ایک آئینی عدالت کے طور پر موجود ہے۔

درخواست میں آئین کے اس اصول پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کے تحت عدلیہ کی آزادی کو مکمل طور پر یقینی بنانا لازم ہے، درخواست میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا آئین کے تحت سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کو ختم کیا جا سکتا ہے؟

سابق چیف جسٹس نے مؤقف اختیار کیا کہ اس معاملے میں ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں، بلکہ جو ریلیف طلب کیا گیا ہے وہ پاکستان کے تمام شہریوں کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس درخواست اور اس پر ہونے والا فیصلہ شہریوں کے بنیادی حقوق پر براہِ راست اثر ڈالے گا، کیونکہ اگر سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات ختم کر دیے گئے تو عوام اپنے بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے کسی خودمختار اعلیٰ عدالتی فورم سے رجوع نہیں کر سکیں گے۔

درخواست گزار کے مطابق، سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات ایک خودمختار اعلیٰ عدالتی ادارے کے طور پر 1973 کے آئین کی اساس ہیں، اس کے اختیارات کو ختم یا محدود کرنے یا اسے کسی دوسرے ادارے کے ماتحت کرنے کی کوشش آئین کے ڈھانچے کو کمزور اور عوامی ارادے کے منافی ہے، جو 1973 کے آئین میں واضح طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کی خودمختاری اور دائرہ اختیار آئینی تقاضے ہیں، اور عوامی نمائندے عوام کے امین کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے وہ ان آئینی تقاضوں کے خلاف نہیں جا سکتے جیسا کہ آئین کے دیباچے میں درج ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے خالقوں نے دانستہ طور پر سپریم کورٹ کے اختیارات کو اس طرح آئین میں درج کیا کہ ان کی خودمختاری اور آئینی نظام میں مرکزی حیثیت اجاگر ہو، عدالت کے اختیارات اور دائرہ کار آئینی طور پر لازم اور آئین کا بنیادی حصہ ہیں۔

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی تسلیم کر چکی ہے کہ آئین میں شامل کچھ بنیادی اصول، جیسے عدلیہ کی آزادی، کو اس طرح تبدیل نہیں کیا جا سکتا جو ان کی اصل روح کو ختم کر دے۔

Comments are closed.