اسلام آباد میں مبینہ بدعنوان مجسٹریٹ و اہلکاروں کا سینئر صحافی پر تشدد اور حبسِ بےجا ، ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
وفاقی دارالحکومت میں ایک مبینہ بدعنوان مجسٹریٹ اور ضلعی انتظامیہ کے ڈیلی ویجز اہلکاروں کی جانب سے سینئر صحافی شفیق بھٹی پر تشدد، حبسِ بےجا اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔ متاثرہ صحافی نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت رٹ پٹیشن نمبر 21480/2025 ایڈووکیٹ سپریم کورٹ علی حسین بھٹی کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کر دی ہے۔ پٹیشن کی ابتدائی سماعت جلد متوقع ہے۔
درخواست کے مطابق، 23 اکتوبر 2025 کی شام تقریباً ساڑھے چار بجے شفیق بھٹی کو اطلاع ملی کہ ایکسائز آفس انڈسٹریل ایریا کے باہر تعینات مبینہ مجسٹریٹ راجہ شعیب پرائیویٹ افراد کے ساتھ مبینہ مالی لین دین میں مصروف ہیں۔ صحافی موقع پر پہنچے تو مجسٹریٹ راجہ شعیب، ڈیلی ویجز ملازم اسامہ اور چار نامعلوم افراد دو ایجنٹوں سے مبینہ رشوت کے تبادلے میں مصروف پائے گئے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج ایکسائز آفس اور میٹرو اسٹیشن کے کیمروں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
درخواست کے مطابق، جب صحافی نے ثبوت محفوظ کرنے کے لیے موقع پر موجود ایجنٹوں کی ویڈیو بنانا شروع کی تو مجسٹریٹ نے اعتراض کیا جبکہ اسامہ نے زبردستی موبائل فون چھین لیا۔ پٹیشن میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مجسٹریٹ نے دھمکی دی کہ “ہم نے پہلے بھی صحافیوں کو پریس کلب میں گھس کر مارا ہے، تمہیں بھی ماریں گے”۔ اس دوران تشدد، جان سے مارنے کی دھمکیاں اور حبسِ بےجا کے واقعات پیش آئے۔
شفیق بھٹی کو بعد ازاں تھانہ انڈسٹریل ایریا منتقل کیا گیا جہاں انہیں تقریباً پانچ گھنٹے تک غیر قانونی طور پر حوالات میں بند رکھا گیا۔ پٹیشن کے مطابق ڈیوٹی افسر اطہر نیازی، اے ایس آئی اعجاز اور اسامہ نے بتایا کہ مجسٹریٹ راجہ شعیب نے ہدایت دی ہے کہ اگر صحافی یقین دہانی کرائے کہ یہ ویڈیو خبر نہیں بنائی جائے گی تو اسے چھوڑ دیا جائے۔ انکار پر حوالات میں پابند سلاسل رکھا گیا۔ میڈیا اور صحافتی نمائندوں کی مداخلت پر رات دس بجے رہائی عمل میں آئی۔ درخواست میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ اہلکاروں نے سادہ کاغذ پر زبردستی دستخط اور انگوٹھے کے نشان لیے۔
متاثرہ صحافی نے واقعے کی شکایت ابتدائی طور پر آئی جی اسلام آباد اور پھر ڈی آئی جی آپریشنز کو دی، تاہم چار روز گزرنے کے باوجود ڈائری نمبر جاری نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں سیشن کورٹ میں سیکشن 22-A کے تحت درخواست دائر کی گئی، جسے متعلقہ تھانے کی جانب سے ڈائری نمبر نہ لگائے جانے کی بنیاد پر واپس کر دیا گیا۔ اس کے بعد متاثرہ فریق نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
ہائی کورٹ میں دائر رٹ پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ مجسٹریٹ راجہ شعیب، اسامہ، اے ایس آئی اعجاز، ڈیوٹی افسر اطہر نیازی اور دیگر نامعلوم افراد کے خلاف تشدد، حبسِ بےجا، دھمکیاں دینے اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر ایف آئی آر درج کر کے شفاف انکوائری کرائی جائے۔
صحافتی تنظیموں نے واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاملہ پریس آزادی، میڈیا سیفٹی اور ریاستی اہلکاروں کی جوابدہی کے لیے ایک اہم ٹیسٹ کیس بن سکتا ہے۔
Comments are closed.