تحریر: شہزاد حسین بھٹی
گزشتہ روز فیڈرل کانسٹیبلری کے دستے پر ہونے والا خود کش حملہ صرف چند اہلکاروں پر حملہ نہیں تھا، یہ ریاست کے امن، اداروں اور عوام کے حوصلے پر براہِ راست ضرب تھی۔ دھماکے کی گونج نے ایک مرتبہ پھر یہ احساس تازہ کر دیا ہے کہ دشمن چاہے سایوں میں چھپا ہو، مگر اُس کا وار ہمیشہ روشنی پر ہوتا ہے۔ ایسے حملے کسی ایک شہر یا ایک محکمے کا دکھ نہیں، یہ پورے پاکستان کی اجتماعی اذیت ہے۔
خیبر پختونخوا برسوں سے دہشت گردی کے نشانے پر ہے۔ کبھی پولیس لائن میں دھماکہ، کبھی فوجی قافلے پر حملہ، کبھی عوامی مقامات پر خونریزی—یہ سلسلہ کب رکے گا، کسی کو نہیں معلوم۔ صوبے کی سڑکوں، پہاڑیوں اور وادیوں نے بے شمار جوانوں کا خون دیکھا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم ہر بار سانحے پر ہی جاگتے ہیں، اس سانحے کی جڑوں تک پہنچنے کی سنجیدہ کوشش کم ہی ہوتی ہے۔
اس موجودہ لہر کے پیچھے محض انتہا پسندی نہیں، بلکہ ایک منظم گٹھ جوڑ موجود ہے۔ ٹی ٹی پی کی بحالی، اسے میسر محفوظ پناہ گاہیں، جدید ہتھیاروں کا حصول اور حملوں کی ترتیب کا انداز, یہ سب کسی حادثاتی جڑت کا نتیجہ نہیں بلکہ واضح منصوبہ بندی کی علامت ہے۔ پاکستان سے پسپائی اختیار کرنے والی یہ تنظیم آج بھی افغانستان کی زمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
افغانستان کا کردار اس وقت سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے۔ کابل کی عبوری حکومت کا یہ دعویٰ کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، عملی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ٹی ٹی پی کے کیمپس، ان کی نقل و حرکت، ان کی افرادی قوت، اور اُن کے کھلے عام بیانات سب کچھ افغان خاموشی اور بعض اوقات گہری چشم پوشی کا نتیجہ ہیں۔ اس خاموشی نے پاکستان کے لیے خطرات میں اضافہ کیا ہے۔
خطے میں بھارت کی سرگرمیاں بھی اس کھیل کا اہم حصہ ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا سے قبل وہاں موجود بھارتی نیٹ ورکس، تربیتی ڈھانچے، اور سرمایہ کاری کے پردے میں کیے گئے خفیہ اقدامات آج بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ بھارتی پراکسی جنگ کا بنیادی مقصد پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنا، معیشت کو پریشان رکھنا، اور اداروں کو نشانہ بنانا ہے۔ ٹی ٹی پی کے متعدد حملوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور ٹیکنالوجی اسی بیرونی پشت پناہی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں پاکستان کے لیے سب سے اہم چیلنج بارڈر مینجمنٹ ہے۔ سرحد اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتی جب تک اس پر مکمل ریاستی کنٹرول نہ ہو۔ بارڈر پر باڑ، چیک پوسٹیں اور نگرانی اپنی جگہ، مگر جب تک دونوں ملکوں کے درمیان واضح اعتماد، سخت پالیسی، اور غیر قانونی نقل و حمل پر مکمل پابندی نہیں ہوگی، دہشت گردوں کے راستے بند نہیں ہوں گے۔ اگر افغانستان توقعات پر پورا نہیں اترتا تو پاکستان اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے بارڈر بندش کا فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہے۔
داخلی طور پر بھی ہماری کمزوریاں دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہیں۔ سیاسی انتشار، اداروں کے خلاف زبان درازی، اور سوشل میڈیا پر بے بنیاد پروپیگنڈہ نہ صرف قوم کو تقسیم کرتا ہے بلکہ دشمن کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف بندوق سے نہیں لڑی جاتی بلکہ یکجہتی، مضبوط بیانیے اور مشترکہ عزم سے جیتی جاتی ہے۔
حل طاقت کا اندھا استعمال نہیں، بلکہ دانشمندانہ پالیسی ہے۔ دہشت گردی کی جڑیں صرف نشانہ بنائے جانے سے ختم نہیں ہوتیں، انہیں اس سوچ اور ان حالات سے بھی نکالنا پڑتا ہے جو انہیں غذا فراہم کرتے ہیں۔ افغانستان سے سفارتی سطح پر سخت موقف، عالمی برادری میں مؤثر نمائندگی، اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی بھی اس کا حصہ ہیں۔
فیڈرل کانسٹیبلری کے شہداء نے ایک بار پھر اپنے لہو سے یاد دلایا ہے کہ یہ جنگ اب بھی جاری ہے اور ہماری بے احتیاطی اسے مزید طویل کر سکتی ہے۔ ان جوانوں کی قربانی ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ امن کوئی ارزاں شے نہیں، اسے خون اور عزم کے ساتھ قائم رکھا جاتا ہے۔ ان کا جان دینا ہماری آنے والی نسلوں کے زندہ رہنے کی ضمانت ہے اور اس ضمانت کی پاسداری اب ہماری ذمہ داری ہے۔
پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ مصلحتوں کی دھند میں جیتا رہے گا یا ایک واضح، سخت اور قومی مفاد پر مبنی پالیسی اختیار کرے گا۔ دہشت گردی ایک ایسا ناسور ہے جو دھیرے دھیرے قوموں کو اندر سے توڑ دیتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اس ناسور کا جڑ سے علاج کریں اور آنے والی نسل کو ایک محفوظ پاکستان دے کر جائیں۔
Comments are closed.