ایران کا پاکستان کے لیے “بلینک چیک” کا اعلان

ایران کا پاکستان کے لیے “بلینک چیک” کا اعلان

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

ایران کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی نے کہا ہے کہ ایران پاکستان کے ساتھ اپنے تعاون کے لیے “بلینک چیک” دے رہا ہے، وہ جب اور جیسے چاہے اسے استعمال کرسکتا ہے۔

علی لاریجانی نے کہا کہ پاکستان نے اسرائیلی جارحیت کے موقع پر ایران کے ساتھ جس بھرپور تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔

ان کے مطابق پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات محض سفارتی نوعیت کے نہیں بلکہ تہذیبی، مذہبی اور تاریخی بنیادوں پر قائم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملک خطے کی دو اہم طاقتیں ہیں جن کے مفادات مشترکہ اور دشمن بھی مشترک ہیں۔

سینئر اینکر پرسن اور صحافی عاصمہ شیرازی کو انٹرویو دیتے ہوئے علی لاریجانی نے واضح کیا کہ اسرائیل نے قطر پر حملہ کرکے اپنی ’’خو‘‘ ظاہر کردی، حالانکہ قطر کے ساتھ اس کے رابطے موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ہمیں پہلے سے معلوم تھا، اور پاکستان کو بھی حالات کا مکمل ادراک تھا۔

ان کے مطابق امریکا اسرائیل کو پسِ پردہ ہمیشہ سپورٹ فراہم کرتا ہے، جبکہ اسرائیل کا اصل ہدف خطے کی مزاحمتی قوتوں کو جھکانا ہے۔

سابق اسپیکر مجلس شوریٰ نے کہا کہ قطر پر حملے کے بعد سعودی عرب سمیت متعدد دوست ممالک کو بھی حقیقت کا اندازہ ہوا۔

اسرائیلی جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر علی لاریجانی کا کہنا تھا کہ
ہم سب مسلمان ہیں، ہمارا قبلہ، کتاب اور پیغمبر ایک ہیں۔ اسرائیل جیسے دشمن کی موجودگی مسلم دنیا کے درمیان وحدت پیدا کرتی ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر علی لاریجانی نے پاکستانی قیادت کی کھل کر تعریف کی اور کہا کہ پاکستان کے آرمی چیف، صدر اور وزیراعظم نے اسرائیلی جارحیت کے وقت بہترین مشاورت فراہم کی۔ انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ اور عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی پارلیمان نے ایران کے حق میں جو قرارداد منظور کی، ہم اس کے شکر گزار ہیں۔ پاکستان کا تعاون ایران کبھی نہیں بھولے گا۔

فلسطین سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایران کا فلسطین کے بارے میں مؤقف اصولی اور جمہوری ہے۔ انہوں نے سپریم لیڈر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ راہبر انقلاب اسلامی نے کئی برس قبل واضح کیا تھا کہ اصل فیصلہ فلسطینی عوام کے انتخاب سے ہونا چاہیے۔ وائٹ ہاؤس فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرسکتا، جیسے وہ پاکستان کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔

انہوں نے غزہ امن منصوبے کے کچھ نکات کو قابلِ عمل قرار دیا، خصوصاً قیدیوں کے تبادلے سے متعلق حصے کو۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ ’’غزہ کی مینجمنٹ غزہ کے عوام کے پاس ہونی چاہیے۔ اگر کوئی فورس صرف سرحدی سیکیورٹی کے لیے بنے تو ٹھیک، لیکن اگر مقصد غزہ کو غیرمسلح کرنا ہوا تو مسائل بڑھیں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس غزہ اور فلسطین کا حصہ ہے، آپ کس کو نکالنے کی بات کرتے ہیں؟ عراق میں ایسے تجربے ناکام ہوئے۔

علی لاریجانی نے مزید کہا کہ ایرانی جوہری پروگرام ختم ہونے کی بات نہایت ’’ناپختہ‘‘ ہے۔ ہم ہزاروں نیوکلیئر ایکسپرٹس رکھتے ہیں۔ ایران اس مرحلے سے گزر چکا ہے، مگر ہم ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہے۔ ہمارا راستہ پُرامن مقاصد کا راستہ ہے۔

انہوں نے مذاکرات کی مخالفت نہیں کی مگر واضح کیا کہ وہ مذاکرات نہیں جن کا نتیجہ پہلے سے طے ہو۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی پر ایران پریشان ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر اسٹریٹجک تعلقات کے خواہاں ہیں، اور ایران بھی پاکستان کے لیے اپنا فرض ادا کرنے کو تیار ہے۔

انہوں نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مشترکہ علاقائی حکمتِ عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کے مطابق یہ گروہ کئی ملکوں میں سرگرم ہیں اور ان کی ایک نظریاتی تاریخ ہے۔

گیس پائپ لائن سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ایرانی حصہ مکمل ہوچکا ہے اور پائپ لائن سرحد تک پہنچ چکی ہے۔ ہمیں خوشی ہوگی کہ ایرانی گیس سے پاکستان کی توانائی کے مسائل حل ہوں۔

سیکرٹری قومی سلامتی کونسل نے کہا کہ موجودہ حالات میں بھارت کی جانب سے کسی حملے کا امکان نہیں دیکھتے۔ ہم پاکستان اور پاکستانی عوام کو بلینک چیک دیتے ہیں کہ اسے جہاں چاہیں، جب چاہیں استعمال کریں۔

Comments are closed.