جانے پر لوٹا، آنے پر خوش آمدید — یہ کیسی سیاست

پارٹیاں بدلنے والوں کے لیے دروازے کھلے، نظریاتی کارکن پھر بھی نظرانداز

پاکستان میں سیاست جہاں نظریاتی وابستگی کا دعویٰ بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے، وہاں عملی طور پر ایسے واقعات بار بار سامنے آتے ہیں جو عوام کی سوچ کو چکرا کر رکھ دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میر اکبر خان صاحب کی ن لیگ میں واپسی نے ایک مرتبہ پھر یہ سوال شدت سے اٹھا دیا ہے کہ آخر ہمارے ہاں سیاستدان بار بار اپنی سیاسی جماعتیں کیوں بدلتے ہیں، جبکہ نظریاتی کارکنوں اور مخلص ورکرز کو آگے آنے کے مواقع کیوں نہیں دیے جاتے؟
جب میر اکبر خان صاحب نے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکنوں کی جانب سے انہیں کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں ’’لوٹا‘‘ قرار دیا گیا اور یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ کسی نظریے کے تحت نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سیاست کر رہے ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی کے لیے ووٹ مانگنے والے میر اکبر خان صاحب کی نیت، کردار اور سیاسی وابستگی سب سوالیہ نشان بن کر سامنے آ گئی تھی۔
اسی دوران، جب میر اکبر خان صاحب نے مسلم لیگ (ن) چھوڑ دی تھی تو مریم نواز نے باغ جلسے میں کارکنوں سے سوال کیا کہ ’’کیا نام کیا جو یہاں سے الیکشن میں لوٹا ہوا ہے؟‘‘ جس پر کارکنوں نے فوراً میر اکبر خان کا نام لیا۔ اسی طرح فاروق حیدر صاحب نے بھی ایک جلسے میں انہیں ’’لوٹا‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ مگر آج، جب میر اکبر خان صاحب دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ہیں، تو فاروق حیدر صاحب نے انہیں خوش آمدید کہا، گویا ماضی کے اعتراضات اور القابات خود بخود ختم ہو گئے ہوں۔
یہ معاملہ صرف ایک شخصیت تک محدود نہیں بلکہ ہمارے سیاسی نظام کی مجموعی سوچ اور ترجیحات کو بے نقاب کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ نوجوان اور نظریاتی کارکن، جنہوں نے برسوں پارٹی کے لیے محنت کی، جلسوں میں نعرے لگائے، مشکل حالات میں قیادت کا ساتھ دیا، کیا انہیں بھی کبھی ایسے مواقع میسر آتے ہیں؟ کیا ان کی نظریاتی وابستگی کی قدر اتنی ہی کی جاتی ہے جتنی ان افراد کی جو وقتاً فوقتاً جماعتیں بدل کر اقتدار یا اہم عہدوں پر آ جاتے ہیں؟
یہ سیاست کا المیہ ہے کہ جانے پر ’’لوٹا‘‘ اور واپس آنے پر ’’خوش آمدید‘‘ کہا جاتا ہے — نظریاتی کارکن کی کوئی جگہ نہیں۔ کشمیر میں سیاسی وفاداری اور نظریاتی وابستگی کا معیار تبھی مضبوط ہو گا جب پارٹی لیڈرشپ حقیقی کارکنوں اور نوجوانوں کو آگے لانے پر توجہ دے گی، بجائے اس کے کہ ہر چند ماہ بعد بدلتے چہروں کو اہم عہدوں اور نشستوں پر لا کھڑا کرے۔ عوام کی نظر میں پارٹی کی ساکھ اسی وقت مضبوط ہو گی جب اصول اور نظریہ کو ترجیح دی جائیں

کالم نعمان شاہ

Comments are closed.