اُس کا انداز محبت بھی ڈرامائی ہے
ہوگیا عشق مجھے ایک اداکار کے ساتھ
جو بھی ملتا ہے، یہی کہتا ہے آرام کرو
گفتگو کرتا نہیں کوئی بھی بیمار کے ساتھ
بائو، جی، کی ایک بار پھر، پاکستان واپسی کا اعلان کیا گیا ہے۔ 12 اکتوبر ہو یا 21 اکتوبر، یہ اُن کے لئے، علم الاعداد کی روشنی میں اچھے اعداد نہیں ہیں۔
بائو، جی صرف اشتہاری مجرم نہیں ہیں۔ بلکہ باقاعدہ مجرم بھی ہیں۔ جو پوری قوم اور عدالتوں کی آنکھوں میں دُھول ڈال کر لندن براستہ قطر اڑان بھر گئے۔ قطری جہاز میں بیٹھتے ہی، بائو جی کے تمام ’’پلیٹلیٹس‘‘ روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے پورے ہوگئے۔ قطری ’’فروٹ‘‘ ان کے لئے ہمیشہ سے ’’انرجی ٹانک‘‘ کا کام کرتا رہا ہے۔ اسی لئے، بائو جی، نے پاکستانی فضائی حدود کراس کرتے ہی، قطری جہاز میں قطری فروٹس کے ساتھ بھری میز کی تصاویر شیئر کر دیں۔
انھوں نے پاکستان کے نظام اور عوام کے منہ پر، وہی طمانچہ رسید کیا۔ جو کبھی انھوں نے سعودی عرب جاتے ہوئے 2000ء میں بھی کیا تھا۔ میں سزائے موت کے قیدی مجیب الرحمٰن کی بات نہیں کروں گا۔ انھیں بھرپور پروٹوکول میں،ہم نے ڈھاکہ کی بجائے لندن بھجوایا۔ جہاں سے واپسی ڈھاکہ جانے کیلئے، بھارت اترے۔ پھر بنگلہ دیش گئے۔ بہر حال قطر اور بھارت کی کوئی مماثلت نہیں ہے۔
مجھے نہیں معلوم، وہ کون لوگ ہیں۔ جو 76 سالہ نواز شریف کو اٹک جیل میں دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ قربانی کے بکرے کو چارے میں آدھی نگران حکومت اور پوری بیورو کریسی دی گئی ہے۔ رہی، سہی کسر، فواد حسن فواد کی بھی وفاقی وزیر بنا کر پوری کردی گئی ہے۔ اب تو نواز شریف کا وزیراعظم کا نوٹیفکیشن باقی رہ گیا ہے۔ میاں صاحب۔۔۔۔ سمجھ دار ہوں تو یہ نوٹیفکیشن بھی کرواہی لیں۔ انھیں بطور وزیراعظم، لاہور ایئرپورٹ پر، ایک بار پھر اترنا چاہیئے۔ جہاں وفاقی وزیر حمزہ شہباز، ان کا استقبال کریں۔
تینوں مسلح افواج کے دستے انھیں گارڈ آف آنر پیش کریں۔ کیونکہ پوری دنیا میں، پاکستان کو، اُن کے علاوہ ”کوئی“ نہیں بچا سکتا۔
مگر، مجھے پتا نہیں، اچھے خیالات نہیں آرہے۔ گدھے اور شیر والی کہانی تو بار، بار، سامنے آجاتی ہے۔ جب لومڑی نے جنگل کے بیمار بادشاہ شیر کو مشورہ دیا کہ اگر وہ گدھے کا دماغ کھائیں تو پھر سے صحت مند ہوسکتے ہیں۔ لومڑی گدھے کو شیر کی کچھاڑ میں بہلا، پُھسلا کر لے آتی ہے کہ بیمار بادشاہ، تمہیں بادشاہت دینا چاہتا ہے۔ گدھا خوشی، خوشی آجاتا ہے۔ بیمار شیر گدھے پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ گدھے کا کان، شیر کے پاس رہ جاتا ہے۔ گدھا بھاگ جاتا ہے۔ شیر، مایوسی سے لومڑی کی طرف دیکھتاہے۔ لومڑی کہتی ہے۔ میں پھر سے کوشش کرتی ہوں۔ وہ گدھے کے پاس جاتی ہے۔ اس کو ڈانٹتی ہے۔ تمہاری جلد بازی سے سارا کام خراب ہوگیا۔ وہ تمہارے کان میں بادشاہت کے گُر بتانا چاہتے تھے۔ مگر تم نے وہاں سے بھاگ کر سارا کام خراب کردیا۔ گدھا پھر سے بادشاہت کے سنہرے خواب سجائے۔ کچھار میں آجاتا ہے۔ اس بار بیمار بادشاہ، اُس سے خوب لاڈ پیار کرتا ہے۔ اس کی ’’نگران کابینہ‘‘ اور انتخابات سمیت پورا روڈ میپ ڈسکس کرتا ہے۔ گدھا ہوائوں میں اڑتا ہے۔ بیمار بادشاہ شیر، اُسے بے خبر، ہوائوں میں گم دیکھ کر اسے قابو کرلیتا ہے۔ جب وہ اُس کا خون ، پی رہا ہوتا ہے۔ لومڑی چالاکی سے، گدھے کا دماغ کھالیتی ہے۔
شیر،خون پینے سے فارغ ہونے کے بعد لومڑی سے پوچھتا ہے۔ گدھے کا دماغ کہاں ہے۔ لومڑی بڑی معصومیت سے کہتی ہے کہ اگر اس کے پاس دماغ ہوتا تو کیا، وہ، کان گنوانے کے بعد بھی، آپ کے پاس آتا۔
قارئین!!!
اوپر کے واقعہ، کہانی، روایت کا، پاکستانی سیاست، سیاستدانوں اور محافظ لومڑیوں سے اگر کوئی مماثلت ہے تو وہ اتفاقی ہوگی۔ اس پر قلم کار کا محاسبہ یا گوشمالی قطعاً نہیں بنتی۔
بہر حال، (ن) لیگ کا اقتدار بیس ویں مہینے میں داخل ہوچکا ہے۔ سندھ میں زرداری کا اقتدار ویسے ہی قائم ہے۔ آبپارہ سے اڑنے والا جہاز کراچی لینڈ نہیں کیا تھا۔ جس نے مقامی قیادت سے مشورے کے بعد، وزیراعلیٰ کا اعلان کرنا تھا۔ جہاز لینڈ ہونے کے بعد، مشاورت شروع ہوئی تو، شرلاک ہومز کو بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ کے نام کا اعلان ہوچکا ہے۔ حیرت میں ڈوبی شخصیت نے پوچھا، وہ کب، بتانے والے نے بتایا کہ جب آپ جہاز میں تھے۔ آصف زرداری نے اوپر بات کی تو باقر صاحب کا اعلان کر دیا گیا۔ قارئین، باقی آپ خود بڑے سمجھدار ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے بھی خوب مزے کروائے گئے ہیں۔ انھوں نے کے۔ پی پر بادشاہت کی ہے۔ اب ان کا کنٹریکٹ ختم ہوگیا ہے۔ وہ نئے کنٹریکٹ کے خواہش مند ہیں۔ جبکہ قوم پرست اور جماعت اسلامی، حصہ بقدر جُثہ کے لئے، پگلائے ہوئے،دیوانہ وار کوششوں میں مصروف ہیں۔
وفاق میں توقیر شاہ، احد چیمہ، شاہدتارڑ، اب فواد حسن فواد۔ پنجاب میں، چیف سیکرٹری چوہدری اختر زمان، اور آئی۔ ج۔ی پھر، ن لیگ کو اور کیاچاہئے ہے۔
مرکز اور پنجاب میں، جاتی عمرہ سروسز آف پاکستان کا مکمل ہولڈ ہے۔ صرف بیورو کریسی ہی نہیں کابینہ تک میں ان کا غلبہ ہے۔ پیپلز پارٹی کا بھی حصہ ہے۔
اب بھی، میاں صاحب اور آصف صاحب، اگر ملک سے باہر ہیں تو زیادتی ہے۔ میاں صاحب حکم کریں تو حسن، حسین نواز، علی ڈار حتیٰ کہ کیپٹن صفدر کو بھی عہدے مل سکتے ہیں۔ کیپٹن صفدر تو ویسے او۔ ٹی۔ ایس ”بھائی“ ہیں۔
اگر بلاول کو دوبارہ سے وزیر خارجہ بنادیا جائے اور وزیر اعظم والا جہاز، ویسے ہی اُن کے حوالے کر دیا جائے تو، راوی ہر سمت چین لکھ سکتا ہے۔ ’’کمپنی‘‘ کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
میں تو کہتا ہوں، اعتماد سازی کے لئے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، منظور قادر کاکا کے حوالے کر دی جائے اور فرحان جونیجو کو گوہر اعجاز کی جگہ کامرس کا منسٹر لگا دیا جائے۔
جبکہ مراد علی شاہ کا متبادل، آصف حیدر شاہ کو چیف سیکرٹری سندھ لگایا جاسکتا ہے۔ اچھے بیورو کریٹ ہیں۔ نیک نامی بھی رہ جائے گی اور تعمیل بھی ہوجایا کرے گی۔ سندھی بیورو کریسی میں نیا اعتماد آجائے گا۔ متحدہ والے بھی ’’سکون‘‘ میں ہونگے۔ ان کے کاموں میں رکاوٹ نہیں رہے گی۔ حتیٰ کہ پیر پگارو بھی ’’رام‘‘ رہیں گے۔ قوم پرستوں کو رام کرنے کا آصف حیدر شاہ کو پرانا تجربہ ہے۔
اب جبکہ نگران وزیراطلاعات کی دھمکی ’’پوری طاقت سے نجکاری کریں گے‘‘ کا جواب فواد حسن فواد کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
پوچھنا یہ تھا کہ راولپنڈی صدر میں تیرہ ارب کے ایک پلازے کی ملکیت کا فیصلہ ہوجانا چاہئے۔ اس کی نجکاری بھی ہوگی یا نہیں، یا، اسے وقف پاکستان تو نہیں کیا جائے گا۔
مجھے فواد حسن فواد کی وزارت کی خبر کے بعد، یقین ہوگیا ہے۔ اب، اللہ (نعوذبااللہ) نے بھی مظلوموں کی طرف سے منہ پھیر لیا ہے۔ پنڈی صدر کے پلاٹ کی ’’مظلوم مالک‘‘ کی آہ، یہیں زمین پر رہ گئی ہے۔
قارئین!!!
جو، اب نجکاری ہوگی۔ الحفیظ، الامان۔۔۔۔ میرا ماننا ہے کہ نجکاری، پوری طاقت نہیں، مکمل جہالت اور بدنیتی سے ہوگی۔ کیا وقت ہے۔ کرائے دار اور گارڈ اب کرائے والا مکان اور سامان، جس کو چاہیں گے، جس قیمت پر چاہیں گے اپنے اوپر سے وار کے، پیش کر دیں گے۔ اور یہ سب کچھ وسیع تر قومی مفاد کے تحت ہوگا۔
اسٹیل مل کی زمین ہزاروں ایکڑ ہے۔ آدھی زمین بیچیں تو پاکستان اسٹیل مل کا تمام قرضہ صاف ہوجائے گا اور مل چلانے کے لئے، 75 سے 80 ارب ہونگے۔ بینکوں کے ساتھ بیٹھیں تو پچاس ارب میں جان چھوٹ سکتی ہے۔ سود مکمل ختم ہوجائے گا۔ سوئی سدرن کا ایل۔ پی۔ ایس صفر ہوسکتا ہے۔ باقی تو بائیس ارب ہی بچتے ہیں۔
اسی طرح سے پی۔ آئی۔ اے اور ریلویز کے پاس اتنی پراپرٹی ہے کہ اس کی دس فیصد پراپرٹی سے یہ ادارے کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ڈسکوز، کوڑیوں کے داموں دینے کا جواز ہمیں بھی تو سمجھائیں بے ایمان اور سیاسی لوگوں کو نکالا جائے۔ ادارے پر بوجھ ملازمین گھوسٹ ملازمین کا خاتمہ کریں۔ دو سے تین سال میں، یہ بھرپور منافع کمانے والے ادارے بن سکتے ہیں۔ اس کے بعد، ان کا انتظامی کنٹرول چالیس فیصد شیئرز کے ساتھ سیکٹرکو دے دیں۔
آج اگر ریاست کا سلور گولڈ بچ ہی گیا ہے تو ایسے لوٹ مار تو نہ کریں۔
اگر آپ ڈھیری حسن آباد کے ان ہیروں سے انقلاب لانے چلے ہیں تو ایڈوانس معذرت قبول کریں۔ اگر ’’احمد چیمہ‘‘ نے گڈ گورننس لانی ہے تو پھر آسمان پھٹ ہی جانا چاہئے۔ شاہد اشرف تارڑ کا -K-B۔Z کے ہی درجات بلند کرے گا۔ ویسے، بلوچستان کے بڑے سیٹھوں اور ٹھیکیداروں کو کون سینٹ میں لایا۔ اس حمام میں انتہائی معذرت کے ساتھ باؤ جی اور زرداری کے ساتھ عمران خان بھی مکمل ننگا ہے۔ ہم جائیں تو کہاں جائیں۔ دودھ کی راکھی پر ”بلے“، بٹھائے جارہے ہیں۔
ویسے کمال ہی ہوگیا ہے۔ لندن کے فلیٹس، سرے محل اور گھڑیاں، سب حلال ہیں۔ اور اس میں گردن، گردن تک دھنسے لیڈر ’’ولی اللہ‘‘ ہیں۔
فواد حسن فواد، احد چیمہ، فرح گوگی، سب سے معصوم ہیں۔ جنرل باجوہ، جنرل کیانی، جنرل مزمل، سب نیک وکار ہیں۔
بس 25 کروڑ عوام، سب سے زیادہ کرپٹ، گناہ گار اور مجرم ہیں۔ قومی خزانے کو بھی عوام نے لوٹا، یہ حرامخور ٹیکس بھی نہیں دیتے۔ بجلی، گیس، چور بھی یہی ہیں۔ تمام ادارے بھی انہی نے بٹھائے ہیں۔ اور سب سے بڑے مجرم اور دہشت گرد یہ ”ان پڑھ“ ہیں۔ جنھوں نے یہ ملک ڈبو دیا۔
سیاستدانوں، بابو، سیٹھ، محافظ اور حافظ، تو اس ملک کے اصل محسن ہیں۔
فرقہ واریت بھی عوام ہی پھیلاتے ہیں۔ دہشتگردوں کے ہتھے بھی یہی چڑھتے۔ ڈالر بھی انہی لوگوں نے ’’ڈمپ‘‘ کر رکھے ہیں۔ یہ بتائیں۔ ان کے مزدوری کے لئے جانے والے بچوں نے صرف دس سالوں میں جو، ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زائد بھیجا، وہ کہاں گئے۔
اب انقلاب ڈھیری حسن آباد سے آئے گا۔ فواد حسن فواد آگئے مزید تفصیلات عرفان صدیقی بتا دیں گے۔۔۔۔
میں اپنی راہ میں دیوار بن کے بیٹھا ہوں
اگر وہ آیا تو۔۔۔۔ کس راستے سے آئے گا
(بشیر بدر)
Trending
- ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری ، 29 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑنے پر مجبور
- صحافت میں سچائی کا سفر پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہوتا ہے
- عمران خان کو جی ایچ کیو حملہ کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست خارج
- اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز کا چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے مختلف اقدامات اور اختیارات کو سپریم کورٹ میں چیلنج
- پاک سعودیہ دفاعی معاہدے سے ملک کی پوری دنیا میں عزت بڑھی،فواد چودھری
- 9 مئی مقدمات ، خدیجہ شاہ سمیت 8 ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری
- مون سون مکمل ختم ، تمام دریاؤں میں صورتحال نارمل ہے،عرفان علی کاٹھیا
- بھارت کے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے مستند شواہد موجود ہیں ،ڈی جی آئی ایس پی آر
- امریکا افغانستان میں بگرام ایئر بیس واپس لینے کی کوشش کر رہا ہے ، ٹرمپ
- سری لنکن کھلاڑی دنیتھ ویلالاگے کے والد ہارٹ اٹیک سے چل بسے
Comments are closed.