داستانِ محبت
(بلا تامل، شاہد اعوان)
کہا جاتا ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ دو دلوں کو ”جوڑنے“ والے نے یہ معجزہ بھی اپنے پاس رکھا ہے۔ اکثر جوڑے اپنی زندگی کو خوشگوار اور بے مثال بنا دیتے ہیں تاہم اس خوش کن عمل کو نبھانے کے لئے ایک نہ ایک فرد کو بہرحال قربانی دینا پڑتی ہے اور اگر فیصلہ دونوں فریقین کا باہم ہو تو پھر معاشرے اور خاندان کو باور کرانے کے لئے تگ و دو زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ فیضؔ نے ان جذبوں کو اپنی شاعری میں کیا خوب رنگ پہنائے ہیں
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں ترے پہلو کے سمن اور گلاب
ہمارے ادب نواز دوست برادرم عابد حسین جنہوں نے ستر کی دہائی میں ریڈیو کی ایک توانا آواز محترمہ ثریا شہاب کے ساتھ مل کر شہرِ بے مثال واہ کینٹ میں ”پاکستان یوتھ لیگ“ کی بنیاد رکھی اب اس قصے کو پچاس سال ہو چلے ہیں انہوں نے نصف صدی اس تنظیم کو بچوں کی طرح پالا پوسا، مشکل ادوار بھی سہے مگر ان کی محنت شاقہ اور لگن کے سامنے سب ہیچ ثابت ہوا۔ دوست احباب اس موقع پر انہیں خوبصورت تحائف اور پھولوں کے گلدستے دے کر مبارکبادیں اور خراج تحسین پیش کرر ہے ہیں۔ فقیر نے سوچا کیوں نہ باصلاحیت نوجوان تخلیق کاروں کے حوصلوں کو جلا بخشنے والے اس عظیم انسان کو قلمی خراج کا انمول تحفہ پیش کروں جو برسوں اس کی خوشگوار یادوں پر چھایا رہے۔
نوے کی دہائی عابد کے شباب کا زمانہ تھا جس خاتون پر اس کی نظرِ انتخاب ٹھہری وہ بھی لاکھوں میں ایک تھیں ٹھہرا ٹھہرا سا لہجہ، کم گو مگر سٹیج کی رانی جنہیں دنیا ’‘زیب“ کے نام سے جانتی ہے۔ زیب بھابھی کو پانے میں عابد بھائی کو کتنے آگ کے دریا پار کرنا پڑے وہ ایک لمبی داستان ہے۔ جب اس خوش قسمت جوڑے کے درمیان عشق کی لازوال داستان رقم ہو رہی تھی تب فقیر بھی جوان اور سرگرم تھا کہ واہ کے نجی تعلیمی اداروں کی تمام تقریبات کا انعقاد اور باہمی رابطوں کو مربوط بنانا فقیر کے ذمہ ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں زیب بھابھی ممتاز ماہر تعلیم شفقت حیات کے سکول سینٹ پال میں پڑھایا کرتی تھیں اور پیشہ وارانہ فرائض کے ساتھ ساتھ طلبا کی ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش ہوا کرتی تھیں بس ان کی یہ ادائیں عابد کے دل میں اترتی چلی گئیں۔۔۔
مری روح میں جو اتر سکیں وہ محبتیں مجھے چاہئیں
جو سراب ہوں نہ عذاب ہوں وہ رفاقتیں مجھے چاہئیں
انہی ساعتوں کی تلاش ہے جو کیلنڈروں سے اتر گئیں
جو سمے کے ساتھ گزر گئیں وہ فرصتیں مجھے چاہئیں
رفتہ رفتہ عابد بھائی اور زیب بھابھی کی محبت پروان چڑھ رہی تھی کہ اس دوران زیب بھابھی کے والدین کینیڈا کے لئے عازمِ سفر ہوئے۔
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سلگاؤ آبگینوں میں
دلِ عشاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
پھولوں کے شیدا ہمارے عابد بھائی کے لئے جدائی کی یہ گھڑیاں کسی قیامت سے ہرگز کم نہ تھیں اس دور میں موبائل فون کا تو نام و نشان نہ تھا آدھی ملاقات کا اکلوتا ذریعہ خط و کتابت ہی تھا جس نے عشاق کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں تریاق کا کام کیا۔ اگر وہ خطوط میسر آجائیں تو لوگ اسد اللہ خان غالب کے خطوط کو بھول جائیں۔ ذرا تصور کیجئے عشاق کے دل و جان پر کیا گزرتی ہو گی جب خط آنے میں ذرا سا تعطل آتا ہو گا۔
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
ہجر و فراق کے یہ شام و سحر بہر حال گزرتے جا رہے تھے عابد حسین تو نوجوان نسل کو اپنے تنظیمی مشن کے ذریعے سامنے لانے میں سرگرداں رہا کرتے تھے اُدھر زیب بھابھی سات سمندر پار عابد کی جدائی میں دن کیسے گزارتی ہوں گی۔ زیب بھابھی کے والدین کو کینیڈین شہریت مل چکی تھی اب فیصلہ زیب بھابھی کو کرنا تھا کہ وہ کینیڈا کی چکا چوند میں رہنا پسند کریں یا پھر ان کی سچی محبت انہیں پاکستان واپس لے آئے۔
ہم جس کی محبت میں ہیں اس شہر کے پابند
وہ اور کسی شہر کا ہونے کے لئے ہے!
محبت جیت ہوتی ہے، محبت مات ہوتی ہے، محبت ذات ہوتی ہے۔۔۔ غرض محبت زندگی کو جینے کے نئے معنی عطا کرتی ہے زندگی کے نئے معنی اور نئے پراہن کی دریافت انسانی تخلیق ہے۔ 1995ء میں بالآخر محبت کی جیت ہوئی اور یہ خوبرو خوش بخت جوڑا رشتہ ازدواج کے بندھن میں بندھ گیا۔۔۔ عابد حسین ساتھ نبھانے والے انسان ہیں انہوں نے ایک طرف زیب بھابھی کو ان کے حصے کا وقت دیا تو دوسری جانب تنظیمی سرگرمیوں سے بھی غافل نہ رہے سینکڑوں کی تعداد میں تقریبات کا انعقاد ہرگز آسان نہ تھا۔ زندگی کے بہترین 50سال تنظیم کو دے کر انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ تحریکیں اور تنظیمیں بے پناہ قربانیاں مانگتی ہیں۔ گو کہ وہ پیشے کے اعتبار سے ”آڈٹ“ جیسے ثقیل شعبہ کے فرد ہیں جو بال کی کھال اتارنے میں مشہور ہے لیکن انہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے کبھی غفلت نہیں برتی۔ ان کا گھر دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ پھول، کیاریاں اور گملے جیسے ان کی زندگی کا حاصل ہیں۔
چاند مسکرایا ہے، چاندنی نہائی ہے
خوشبوؤں نے موسم میں آگ سی لگائی ہے
سال2023ء ان کی تنظیم پاکستان یوتھ لیگ کا گولڈن جوبلی کا سال ہے اور ان کی شادی کا 28واں سال، زیب بھابھی کی آنکھوں کی اداسی بتاتی ہے کہ عابد بھائی نے ان کا زیادہ تر وقت بھی تنظیم کو دے دیا ہے اور تنظیمی جنون کے ہاتھوں اپنے جیون ساتھی کو وہ وقت نہیں دے سکے جس کا وعدہ خط و کتابت میں کیا کرتے تھے خیر ان کی اپنی تنظیم کے ساتھ گہری وابستگی اور کمٹمنٹ بے مثال ہے۔ دعا ہے یہ جوڑا سلامت رہے اور جیون کی خوشیاں یونہی مناتا رہے۔
Comments are closed.