اسلام آباد (زورآو ر نیوز) چیف جسٹس کے اختیار کی تقسیم کا قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر کالعدم قرار دیا جائے،سپریم کورٹ سے استدعا کر دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس میں درخواست گزار راجہ عامر کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب جمع کروا دیا ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی کے قانون میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی،پارلیمںٹ کی عدالتی معاملات میں مداخلت اختیارات کی آئینی تقسیم کی خلاف ورزی ہے۔پارلیمنٹ عام قانون سازی سے آرٹیکل 184 تھری کے اختیار کا طریقہ کار تبدیل نہیں کر سکتی،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدالتی امور کی انجام دہی تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ تحریری جواب میں کہا گیا کہ فل کورٹ 1980 کے رولز میں تبدیل کر سکتی ہے،بلاشبہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔یاد رہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف سماعت تین اکتوبر کو ہو گی جس کی کاز لسٹ جاری کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت کرے گا۔ عدالت نے 25 ستمبر تک فریقین سے تحریری جوابات طلب کر رکھے ہیں،کیس کی سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کی جائے گی۔ جبکہ 20 ستمبر کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا تھا، جس کے تحت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجازالاحسن کی آمادگی پر مشاورت کریں گے۔تین درخواستوں پر سپریم کورٹ سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی گئی تھی، حکم دیا گیا تھا کہ تمام فریق 25 ستمبر تک تحریری دلائل اور معروضات جمع کرا دیں۔سپریم کورٹ فل کورٹ بنانے کی بنیاد پردرخواستیں نمٹاتی ہے۔
Comments are closed.