اسلام آباد (زورآور نیوز) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے خلاف کیس سماعت کیلئے مقرر کر لیا گیا۔فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ 23 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔رجسٹرار آفس نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے۔سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ملٹری کورٹس کے خلاف درخواست دائر کی تھی درخواست وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے دائر کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری کورٹس کے ذریعے سویلینز کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے۔ استدعا کی گئی کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1)(d)(i) اور (ii) آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے، ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے حوالے کیے گئے افراد کو کہاں رکھا گیا ہے اس کا ڈیٹا طلب کیا جائے۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ استدعا کی گئی کہ عدالت ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے بیجے جانے والے ملزمان کو فوجداری عدالتوں میں ٹرائل کے لیے سول اتھارٹیز کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرے۔ استدعا کی گئی کہ ملٹری کورٹس کی تمام کاروائی روکنے اور کوئی بھی حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے، درخواست گزار کا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کو سپورٹ کرنا نہیں۔درخواست میں موقف اختیار کیاگیاکہ کورٹ مارشل کی کاروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف کی جا سکتی ہے، کورٹ مارشل کا مقصد افواج میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیاگیاکہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر وہ حاضر سروس ملازم ہوں،بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آئین پاکستان کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے،اس کیس کے فیصلے کا فوری طور پر بنیادی حقوق پر براہِ راست اثر پڑے گا۔موقف اختیار کیاگیاکہ حکومت اور فوج نے واضح کیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلایا جائے گا، درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ کوئی جرم سرزد ہونے کی صورت میں ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے۔موقف اختیار کیاگیاکہ کورٹ مارشل کی صورت میں آئین میں دیئے گئے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی، شفاف ٹرائل اسی صورت ممکن ہوگا جب مقدمے کی کھلی سماعت ہو اور ملزمان کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہو۔
موقف اختیار کیاگیاکہ کورٹ مارشل کی صورت میں ان اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی،ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دستیاب نہیں ہوگا۔درخواست میں وزارت قانون، وزارت دفاع کو فریق بنایا گیا ہے ۔درخواست میں پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی فریق ہیں ۔
Comments are closed.