فوجی عدالتوں میں سویلین کا کیس،فیصلہ محفوظ کر لیا گیا

اسلام آباد(زورآور نیوز) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سیولئنز کے ٹرائل کے خلاف درخوستوں پر سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت ک۔ درخواست گزاروں نے اعتراض کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع ہوچکا ہے۔سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ٹرائل شروع ہونے کے معاملے کا بھی جائزہ لینگے، اٹارنی جنرل دلائل مکمل کر لیں پھر دیکھیں گے آگے کیسے چلنا ہے، اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ سماعت کا خلاصہ دوں گا۔ میں بتاؤں گا کہ موجودہ ٹرائل کے لیے کیوں آئینی ترمیم ضروری نہیں تھی۔ میں آرٹیکل 175 پر بھی بات کروں گا،۔ لیاقت حسین کیس کا پیرا گراف بھی پڑھوں گا، 21 ویں آئینی ترمیم کے فیصلے کی روشنی میں بھی دلائل دوں گا۔ممنوعہ علاقوں اور عمارات پر حملہ بھی ملٹری عدالتوں میں جا سکتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسارکیا کہ دہشتگردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کے لیے نہیں؟ میں آپ کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمڈ فورسز سے ملزمان کا ڈائریکٹ تعلق ہو تو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں، ملزمان کا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی ٹو کے تحت ٹرائل کیا جائے گا، سوال پوچھا گیا تھا کہ ملزمان پر چارج کیسے فریم ہو گا۔۔ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں فوجداری مقدمہ کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ نو مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالت کی طرز پر ہوگا۔فیصلے میں وجوہات دی جائیں گی شہادتیں ریکارڈ ہوں گی۔ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کے تمام تقاضے پورے ہوں گے۔ ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیلیں بھی کی جا سکیں گی۔ دلائل کے دوران عدالتی سوالات کے جوابات بھی دوں گا۔ عدالت کو آگاہ کروں گا کہ 2015 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں کیوں بنائی تھیں۔ عدالت کو یہ بھی بتائوں گا کہ اس وقت فوجی عدالتوں کیلئے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا 2015 کے ملزمان عام شہری تھے، غیرملکی یا دہشتگرد؟ ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان میں ملکی و غیرملکی دونوں ہی شامل تھے، سال 2015 میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشتگردوں کے سہولت کار بھی شامل تھے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ دہشتگردوں کیلیے ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کیلئے نہیں ؟ ۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا اپ اپنے دلائل کو آئین کے آرٹیکل 8(3) سے کیسے جوڑیں گے ؟ آئین کے مطابق تو قانون میں ارمڈ فورسز سے تعلق ضروری ہے ۔اپکی تشریح کو مان لیا تواپ ہر ایک کو اس میں لے ائیں گے جسٹس عائشہ ملک جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ قانون واضح ہے پھر ملزمان کا تعلق کیسے جوڑیں گے آئین بنیادی حقوق کو تحفظ دیتا ہے۔بعدازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

 

 

Comments are closed.