اسلام آباد (زورآور نیوز) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیش آئے سارہ انعام قتل کیس میں گرفتار ملزم شاہنواز امیر کلاشنکوف برآمدگی کیس میں بری کردیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد کی عدالت نے سارہ انعام قتل کیس میں گرفتار مرکزی ملزم شاہنواز امیر کلاشنکوف برآمدگی کیس میں بری کردیا، عدالت نے ملزم شاہنواز امیر کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا، اس کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر نے تحریری فیصلہ جاری کیا اور قرار دیا کہ استغاثہ ملزم کے خلاف الزام ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہی، استغاثہ کے شواہد میں ایک سے زائد شکوک وشبہات پائے گئے، اس لیے شک کا فائدہ ملنا ملزم کا حق ہے۔عدالتی فیصلے میں پولیس کی ناقص تفتیش کا انکشاف ہوا جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیس کی کمپلینٹ پولیس اسٹیشن کو بھجوانے والے کانسٹیبل طارق کو بطور گواہ عدالت میں پیش ہی نہیں کیا گیا، اتنے اہم گواہ کو عدالت پیش نہ کرنے کے قانون شہادت کے تحت نتائج ہیں، پرائیویٹ شخص کو گواہ نہ بنانا بھی ایک اور بڑا سقم ہے۔معلوم ہوا ہے کہ سارہ انعام کیس میں دوران تفتیش پولیس نے شاہنواز امیر سے غیر اسلحہ یافتہ کلاشنکوف برآمد کرنے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، آرمز آرڈیننس 1965 کے تحت 25 ستمبر 2022ء کو تھانہ شہزاد ٹاؤن مقدمہ درج کیا گیا۔ علاوہ ازیں سارہ انعام قتل کیس کے ملزم نے عدالت کے روبرو اپنے بیان میں اپنے خلاف قتل کے الزامات کو بھی من گھڑت قرار دے دیا اور موقف اختیار کیا ہے کہ ’میرے اور سارہ انعام کی وٹس ایپ چیٹ سے ظاہر ہوتا ہے ہمارے درمیان کچھ تنازعہ نہ تھا، میں اور میری اہلیہ سارہ انعام بہت خوشی سے ساتھ رہ رہے تھے، وقوعہ والے روز سارہ انعام میرے پاس ہنسی خوشی موجود تھی‘۔ملزم شاہ نواز نے الزام عائد کیا کہ ’پراسیکیوشن کی جانب سے جھوٹی کہانی بنانے کے لئے ڈاکٹر نے سر پر متعدد انجریوں کا بیان دیا، میرے خلاف پولیس نے قتل کی مکمل طور پر جھوٹی کہانی بنائی، جو تصاویر بطور ثبوت پیش کی گئیں اس پر بھی مجھے شک ہے، میں جائے وقوعہ کی کسی بھی تصویر میں موجود نہیں ، میرے خلاف ڈمبل سے قتل کرنے کی بھی کہانی پولیس نے بعد میں بنائی، مجھے سارہ انعام کی خون آلود کپڑوں کا کچھ معلوم نہیں ہے‘۔ملزم کا کہنا ہے کہ ’مقتولہ کے والد انعام الرحیم اور چچا اکرام الرحیم کسی وقوعہ کے چشم دید گواہ نہیں، پولیس کو دیئے گئے اپنے پہلے بیان میں والد انعام الرحیم نے مجھ پر قتل کا کوئی الزام نہیں لگایا، اس کیس میں انعام الرحیم کو ظفر قریشی نے قتل کے بارے میں بتایا جوشاملِ تفتیش ہوا نہ گواہ ہے، میرے کوئی خون آلود کپڑے پولیس کو برآمد نہیں ہوئے پولیس نے جائے وقوعہ کا مکمل کنٹرول لے لیا تھا، میرے خلاف جائے وقوعہ سے مختلف تاریخوں پر ثبوت اکٹھے کیے گئے، جائے وقوعہ سے برآمد کیے گئے ثبوت بھی جھوٹے ہیں، میرے خلاف ریکارڈ پر لائے گئے میڈیکل ثبوت بھی متنازع ہے‘۔ملزم شاہ نواز نے اپنے بیان میں کہا کہ ’کوئی ریڈیولوجسٹ بطور گواہ نہ کوئی ایکسرے بطور ثبوت میرے خلاف پیش کیا گیا، پولیس نے مدعی کے ساتھ مل کر جھوٹی کہانی بنائی، موبائل فون ٹوٹنے کی کہانی اصل حقائق کو منظرعام سے حذف کرنے کے لیے بنائی گئی، پولیس نے سارہ انعام کی موبائل سم لی نہ ہی فرانزک کے لیے بھیجا، مدعی نے سارہ انعام کے اصل موبائل کو تبدیل کر دیا، پولیس نے ثبوت مدعی سے حاصل کیے جو میرے خلاف پلانٹ کیے گئے تھے، اگر ثبوت وقوعہ والے دن کمرے میں موجود تھے تو اسی دن پولیس نے کیوں نہیں برآمد کیے؟، میرے سارہ انعام کو بھیجے گئے وائس میسجز بھی مدعی کی جانب سے جھوٹی کہانی ہے، میرے نہ سارہ انعام کے موبائل سے وائس میسجز نہیں برآمد ہوئے، دورانِ جسمانی ریمانڈ پولیس نے میری آواز ریکارڈ کی اور فرانزک کے لیے بھیج دی‘۔ملزم نے عدالت کے سامنے بیان دیا ہے کہ کسی مجسٹریٹ کی موجودگی میں میری آواز کا نمونہ نہیں لیاگیا، 5 اکتوبر 2022ء کو کیا گیا میرا مبینہ وائس سیمپل بھی ایف آئی اے کے نہیں بھیجاگیا، ایف آئی اے کی جانب سے میرے وائس سیمپل کی فرانزک بھی پولیس کی جانب سے من گھڑت کہانی ہے، میرے طبی معائنے کی بھی کوئی درخواست نہیں تھی، میرے خلاف جھوٹی دستاویزات بنائی گئیں، میرے موبائل سے جائے وقوعہ کی لی گئی تصاویر کا مجھے معلوم نہیں‘۔
Comments are closed.