آغا جانی جنت مکانی ہوئے

Shahid Ewan

آغا جانی جنت مکانی ہوئے

شاہد اعوان، بلاتامل

 

آغا عبدالغفور خان کے بارے رقم کرنا ایسا ہی ہے جیسے دو دہاری تلوار پر پاپیادہ چلنا۔ ان کی تحریریں کبھی جوالا مکھی بن جاتیں کبھی مرغزار کے چشمے کی طرح بہنے لگتیں، لفظوں اور تراکیب سے کبھی آتش فشاں ابل پڑتا، کبھی ان کی حلاوت اور نرمی صبح کی چڑیوں کی طرح چہچہانے لگتی۔۔۔ ان کے لب و لہجے میں الفاظ کے نت نئے خزینوں، معانی و مطالب کے ان گنت پہلوؤں کا ذخیرہ کبھی کم پڑتا ہوا نہیں ملا ہر بار ان کے قاری یا سامع کو کچھ نہ کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ مل جاتا ہے۔ جوشؔ نے کہا تھا:
لیلائے سخن کو آنکھ بھر کر دیکھو
قاموس و لغات سے گزر کر دیکھو
الفاظ کے سر پر نہیں اُڑتے معنی
الفاظ کے سینے میں اُتر کر دیکھو
آغا عبدالغفور کو ’مرحوم‘ لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں یوں لگتا ہے کہ آغا جی کو ملنے جاؤں گا تو پہلا سوال یہی کریں گے کہ شاہد میاں!آج کل کیا لکھ رہے ہو؟ ان کی نستعلیق شخصیت کی اردو کی داد دوں یا ان کا فارسی زبان پر عبور کو قرطاس کی زینت بناؤں۔ فقیر ان کے روبرو بولنے سے گھبراتا تھا جبکہ وہ سراپا محبت تھے، بندہ عاجز سے مل کر اتنے خوش ہوتے کہ ان کے گالوں سے لالی ٹپکنے لگتی۔ وہ لگ بھگ سات آٹھ سا ل علیل رہے اور صرف گھر کے ہو کے رہ گئے، بصارت بھی بہت حد تک کم ہو گئی تھی۔ آغا جی کی دوستی ہمیشہ کتابوں سے رہی ان کے پاس کتابوں کا جو خزینہ موجود ہے شاید ہی کسی بڑی لائبریری سے کم ہو سائنس سے لے کر انگریزی لٹریچر، ادب، تاریخ، شاعری غرض ہر قسم کی کتب ان کی لائبریری میں موجود ہیں جب وہ اپنے موجودہ گھر خان ماڈل ٹاؤن کالونی کے نئے مکان میں شفٹ ہوئے تو گھر کا سب سے آرام دہ کمرہ ان کا لائبریری روم ہی تھا۔ کتابوں کو دھوپ لگوانا، جھاڑ پونچھ کرنا ان کی اولین ترجیح ہوتا، ٹکٹ جمع کرنا، پرانے اور قدیم سکے، ماچسیں اکٹھی کرنا، قیمتی پتھروں کی شناخت ان پر ختم تھا۔ سیاح ایسے کہ شاید ہی ناردرن ایریا کا کوئی مقام ہو جو انہوں نے نہ گھوما ہو اور یہ کام وہ اکیلے نہیں کرتے تھے بلکہ گھر کے تمام افراد بھی ان کے ہمسفر ہوتے۔ ان کی وفا شعار اہلیہ اور میری بہن محترمہ نغمہ آغا کو یہ نام بھی ان کے محبت کرنے والے خاوند آغا جی نے عطا کیا تھا گویا ان کا ادب اور شعرو شاعری سے شغف بھی آغا جی کے مرہون منت تھا۔ آغا صاحب کی جنون کی حد تک مہمان نوازی کو دیکھ کر یہ گمان گزرتا جیسے انہوں نے اللہ سے ایک ہی چیز مانگی تھی کہ ان کے ہاں علم و ادب کے متلاشی مہمان قطار اندر قطار آتے جاتے رہیں انہی میں ایک شخصیت ڈاکٹر سکندر حیات بھی تھے جنہیں کتب بینی اور لکھنے لکھانے کا خاصا شوق تھا۔ آغا صاحب کو آثارِ قدیمہ اور تاریخی مقامات و ورثہ سے خصوصی لگاؤ تھا وہ ماہر آثار شناس تھے، معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر احمد حسن دانی کا ان کے ہاں آناجاناتھا۔ مہمانوں کی آمد کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مسز آغا کے ہاتھ میں اتنی لذت ہے کہ جو ایک بار ان کے ہاتھ کا کھانا کھا لیتا باربار کھانے کی خواہش کرتا تھا۔ آغا صاحب ک اولاد میں دو فرزند آغا احمد فرحان اور آغا ریحان جبکہ تین صاحبزادیاں ہیں۔ بڑے صاحبزادے آغا فرحان ایک حساس ادارے میں ملازم ہیں انہوں نے چند سال قبل ماس کمیونیکیشن کی ڈگری بھی لے لی ہے، ریحان امریکہ سدھار چکا ہے اور دو صاحبزادیاں کینیڈا میں مقیم ہیں۔ آغا احمد فرحان کی اہلیہ کالج میں پڑھاتی ہیں جبکہ آغا جی کی ایک صاحبزادی سکول ٹیچر ہیں۔آغا عبدالغفور افغانی النسل تھے انہیں اردو، فارسی، پشتو، پنجابی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا جبکہ ان کے عزیز رشتہ دار آج بھی فارسی زبان میں روانی سے گفتگو کرتے ہیں، ان کا خطہ پوٹھوہار پر گہرا مطالعہ تھا انہوں نے پوٹھوہار پر ایک کتاب بھی مرتب کی تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ آغا خاندان خالص پاکستانی ہے جو ملک کے خلاف اٹھنے والے زبان اور قلم کو برداشت نہیں کرتے اور ان کا منہ توڑ جواب دینا اپنا قومی فریضہ گردانتے ہیں۔ حسن ابدال سے آغا صاحب کو بڑا پیار تھا اس شہر کی تاریخ اور پس منظر پر ان کی گہری نظر تھی محلہ اندرون جو شہنشاہ شاہ جہاں کے دور کی قدیم یادگار ہے کئی سال قبل اس کا کچھ حصہ گرا کر وہاں دکانیں بنا دی گئیں، جب اس کی بھنک آغا صاحب تک پہنچی تو الصبح مجھے فون کیا اور سختی سے کہا کہ آپ لوگ تاریخ سے بالکل نابلد ہو جنہوں نے تاریخ مٹانے کی کوشش کی ہے ان کے خلاف لکھو۔ خیر ان کے حکم پر لکھ دیا جس پر کئی سیاسی پردھانوں کو شدید تکلیف بھی پہنچی لیکن بطور صحافی اپنا فرض نبھایا۔ آغا عبدالغفور خان کی باغ و بہار شخصیت کو ایک کالم میں سمونا ممکن نہیں ان کی زندگی کا مکمل احاطہ کرنے کے لئے کئی کتابیں درکار ہیں۔ وطن سے محبت ان کی گفتگو اور لفظ لفظ سے جھلکتی تھی وہ اس بات پر فخر محسوس کرتے تھے کہ وہ پاکستانی ہیں اور انہیں اس مٹی سے عقیدت ہے وہ اس وطن کی مٹی کے بہت سے حقوق کو جانتے اور مانتے تھے۔ 27نومبر2023ء بروز سوموار شب 11بجے 95برس کی عمر میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور اگلے روز28نومبر کو دن دو بجے نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کی تدفین مقامی قبرستان میں کر دی گئی۔ آغا صاحب کی نذر احمد ندیم قاسمی کے چند اشعار:
میں امین و قدر شناس تھا، مجھے سانس سانس کا پاس تھا
یہ جبیں پہ ہیں جو لکھے ہوئے یہ حساب ہیں مہ و سال کے
کوئی کوہ کن ہو کہ قیس ہو، کوئی میرؔ ہو کہ ندیمؔ ہو
سبھی نام ایک ہی شخص کے، سبھی پھول ایک ہی ڈال کے

Comments are closed.