سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے خلاف 16 ارب روپے کے مبینہ غیر مجاز ٹیکس ریفنڈز پر مقدمہ درج
ایف آئی آر میں 7.72 ارب روپے قبل از وقت نکلوائے جانے اور مفادات کے ٹکراؤ کے سنگین الزامات شامل
مقدمہ انسدادِ بدعنوانی ایکٹ 1947 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 109 کے تحت درج
تحقیقات اسسٹنٹ ڈائریکٹر نند لال کی سربراہی میں جاری، ایف آئی اے نے ریکارڈ اور ٹرانزیکشن ڈیٹا طلب کر لیا
کراچی
شمشاد مانگٹ
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اینٹی کرپشن سرکل کراچی نے سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سید محمد شبر زیدی کے خلاف 16 ارب روپے کے مبینہ غیر مجاز انکم ٹیکس ریفنڈز کے الزام میں باقاعدہ مقدمہ درج کر لیا ہے۔
ایف آئی آر میں ایف بی آر کے چند افسران اور حبیب بینک لمیٹڈ (HBL) کے انتظامی حکام کو بھی شریکِ ملزم قرار دیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ 29 اکتوبر 2025 کو درج کیا گیا، جس کی تفتیش اسسٹنٹ ڈائریکٹر نند لال کی سربراہی میں کی جا رہی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق، شبر زیدی کے دورِ چیئرمینی (10 مئی 2019 سے 6 جنوری 2020) کے دوران تقریباً 16 ارب روپے کے غیر مجاز ریفنڈز ایسی کمپنیوں کو جاری کیے گئے جو زیدی کے ایف بی آر کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ان کی ذاتی مؤکل (clients) تھیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 8.96 ارب روپے کے انکم ٹیکس بانڈز مختلف مالی سالوں کے لیے حبیب بینک لمیٹڈ کو جاری کیے گئے۔ یہ بانڈز 2022 میں پختہ (mature) ہونے تھے، تاہم مدتِ پختگی سے قبل ہی تقریباً 7.72 ارب روپے کی رقم غیر قانونی طور پر ایک چیک کے ذریعے نکلوائی گئی۔
ایف آئی اے کے مطابق یہ چیک شبر زیدی کی نگرانی میں جاری ہوا اور متعلقہ رقم براہِ راست ایچ بی ایل کے ٹریژری اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے قومی خزانے کو بھاری مالی نقصان پہنچا۔
ایف آئی آر میں شبر زیدی پر اختیارات کے ناجائز استعمال، غیر قانونی مالی فائدہ پہنچانے اور بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ ان کا واضح مفادات کا ٹکراؤ (Conflict of Interest) موجود تھا، کیونکہ وہ ماضی میں مَیسّر اے ایف فرگوسن اینڈ کمپنی سے وابستہ تھے — وہی آڈیٹنگ فرم جو حبیب بینک لمیٹڈ کو ٹیکس مشاورت کی خدمات فراہم کرتی تھی۔
مقدمہ انسدادِ بدعنوانی ایکٹ 1947 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 109 کے تحت درج کیا گیا ہے، جن کے تحت سرکاری اختیارات کے غلط استعمال اور شریکِ جرم کے الزامات کی سزا قید، جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہے۔
ایف آئی اے نے موقف اختیار کیا ہے کہ ریفنڈز کے اجرا میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہوئی، اور ریفنڈ منظوری کے وقت باضابطہ آڈٹ و تصدیق کا عمل مکمل نہیں کیا گیا۔ تحقیقات کے دوران ایف آئی اے نے ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، اور ایچ بی ایل سے مکمل مالیاتی ریکارڈ، ریفنڈ آرڈرز، اور بینک ٹرانزیکشنز کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
ادارے نے اس کیس کی نقول ڈائریکٹر کارپوریٹ کرائم، زونل ڈائریکٹر کراچی، اور دیگر سینئر حکام کو بھی ارسال کر دی ہیں تاکہ تفتیش بین الادارہ سطح پر آگے بڑھائی جا سکے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق، شبر زیدی کی جانب سے تاحال کوئی تحریری ردِعمل یا وضاحتی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریفنڈز ایف بی آر کے خودکار نظام کے تحت جاری ہوئے، اور چیئرمین کے طور پر ان کا کردار “پالیسی نوعیت” کا تھا، نہ کہ کسی مخصوص ریفنڈ کی منظوری میں براہِ راست مداخلت کا۔
زیدی ماضی میں مختلف فورمز پر یہ مؤقف اختیار کر چکے ہیں کہ “پاکستان میں ریفنڈز کی تاخیر کاروبار اور برآمدات کے لیے نقصان دہ ہے، اس لیے بروقت ادائیگی معیشت کے لیے ناگزیر ہے۔”
شبر زیدی کو مئی 2019 میں اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے بطور ٹیکنوکریٹ چیئرمین ایف بی آر تعینات کیا تھا۔ انہوں نے ٹیکس اصلاحات، دستاویزی معیشت اور غیر رسمی نقدی نظام پر قابو پانے کے لیے کئی سخت اقدامات تجویز کیے۔ تاہم چند ماہ بعد ہی، جنوری 2020 میں، وہ طبی وجوہات اور “ادارہ جاتی مزاحمت” کے باعث عہدے سے الگ ہو گئے۔
عہدہ چھوڑنے کے بعد انہوں نے مختلف انٹرویوز میں پاکستان کے ٹیکس نظام، اشرافیہ کے اثر و رسوخ، اور پالیسی مفادات پر کھل کر تنقید کی ، جس کے باعث بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ان کے حالیہ بیانات اور ماضی کی پوزیشن بھی موجودہ کارروائی کی ایک ممکنہ وجہ بن سکتی ہے۔
ٹیکس اور مالیاتی ماہرین کے مطابق یہ کیس پاکستان میں ٹیکس ریفنڈ نظام کی شفافیت اور ادارہ جاتی احتساب کے لیے ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر الزامات درست ثابت ہو گئے تو یہ کیس ملک کے مالیاتی نظم و نسق میں ایک تاریخی نظیر بن سکتا ہے۔ تاہم اگر شواہد ناکافی نکلے یا کیس سیاسی بنیادوں پر بند کر دیا گیا تو یہ احتسابی عمل کی ساکھ پر مزید سوالات اٹھا سکتا ہے۔
فی الحال تحقیقات ابتدائی مرحلے میں ہیں، مگر ایف آئی اے کے مطابق مزید شواہد اور بیانات جمع کیے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سابق چیئرمین ایف بی آر جلد تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں۔ یہ مقدمہ نہ صرف ایف بی آر کے داخلی نظم و ضبط بلکہ پاکستان کے مالیاتی احتسابی نظام کے لیے بھی ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے ، کیونکہ اس کا نتیجہ آئندہ کے پالیسی ڈھانچے، بینک ریگولیشنز، اور سرکاری افسران کی اختیاراتی حدود پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
Comments are closed.