اسرائیل اور حماس کے درمیان تاریخی امن معاہدہ طے پا گیا، یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی پر اتفاق
واشنگٹن
اسرائیل اور حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے پر اتفاق کر لیا، جس کا مقصد اس تباہ کن تنازع کو ختم کرنا ہے جس میں دسیوں ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، فلسطینی علاقے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے اور ایک بڑے انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرے گی جبکہ اسرائیل اپنی افواج کو ایک طے شدہ لائن تک پیچھے ہٹا لے گا۔
حماس 2 ہزار فلسطینی قیدیوں کے بدلے 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔
ٹرمپ نے ثالثی کرنے والے ممالک قطر، مصر اور ترکیہ کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ اس ہفتے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کر سکتے ہیں کیونکہ معاہدہ ’انتہائی قریب‘ ہے، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے یرغمالیوں کی رہائی پیر کے روز متوقع ہے۔
غیرملکی خبر رساں اداروں کے مطابق اس معاہدے پر جمعرات کو دستخط کیے جائیں گے، جس کے تحت قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ غزہ میں انسانی امداد کے بڑے پیمانے پر داخلے کی اجازت دی جائے گی، یہ اقدام دو سال سے جاری نسل کشی کے بعد کیا جا رہا ہے، جو اس وقت شروع ہوئی تھی جب تل ابیب نے اکتوبر 2023 میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد فلسطینی علاقے پر بمباری شروع کی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے 20 نکاتی امن منصوبے پر مصر میں ہونے والے مذاکرات کے بعد طے پانے والے معاہدے کے بعد کہا کہ حماس تمام یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جب کہ اسرائیل اپنی افواج کو ایک طے شدہ لائن تک پیچھے ہٹا لے گا۔
قطر نے کہا کہ یہ معاہدہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کا پہلا مرحلہ ہے، جو جنگ کے خاتمے، اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اور امداد کی فراہمی کا باعث بنے گا۔
حماس کے ایک ذریعے نے جمعرات کو اے ایف پی کو بتایا کہ اس معاہدے کے پہلے مرحلے میں 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق یہ تبادلہ معاہدے پر عمل درآمد کے 72 گھنٹوں کے اندر متوقع ہے، جس پر جمعرات کو دستخط کیے جائیں گے۔
یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے عمر قید کی سزا کاٹنے والے 250 فلسطینی اور جنگ شروع ہونے کے بعد گرفتار کیے گئے 1700 دیگر فلسطینی رہا کیے جائیں گے۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد چیف آف اسٹاف ایال زمیر نے افواج کو ہدایت دی ہے کہ وہ دفاع کو مضبوط بنائیں، ہر ممکن صورتِ حال کے لیے تیار رہیں، اور یرغمالیوں کی واپسی کے آپریشن کو حساسیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ انجام دینے کے لیے تیار رہیں ۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر کہا کہ ’میں بہت فخر سے اعلان کرتا ہوں کہ اسرائیل اور حماس دونوں نے ہمارے امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط کر دیے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام یرغمالیوں کو بہت جلد رہا کر دیا جائے گا، اور اسرائیل اپنی افواج کو ایک متفقہ لائن تک پیچھے ہٹا لے گا، جو ایک مضبوط، پائیدار اور دائمی امن کی طرف پہلا قدم ہوگا‘۔
ٹرمپ نے ثالثی کرنے والے ممالک قطر، مصر اور ترکیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’امن قائم کرنے والوں پر سلامتی ہو‘۔
امریکی صدر نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ مصر میں طے پانے والا یرغمالیوں کے بدلے جنگ بندی کا یہ معاہدہ دنیا کے لیے ایک عظیم دن ہے۔
ٹرمپ نے رائٹرز سے ایک مختصر ٹیلیفونک انٹرویو میں کہا کہ ’پوری دنیا اس معاملے پر یکجا ہو گئی ہے، اسرائیل، ہر ملک اس میں شامل ہوا ہے، آج دنیا کے لیے ایک شاندار دن ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ دنیا کے لیے ایک عظیم دن ہے، ایک خوشی کا دن، سب کے لیے ایک شاندار دن‘۔
اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ ’خدا کی مدد سے‘ اسرائیلی یرغمالیوں کو واپس لائیں گے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ جمعرات کو اپنی حکومت کا اجلاس طلب کریں گے تاکہ معاہدے کی منظوری دی جا سکے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’منصوبے کے پہلے مرحلے کی منظوری کے ساتھ ہی ہمارے تمام یرغمالیوں کو وطن واپس لایا جائے گا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ اسرائیل کی ریاست کے لیے ایک سفارتی کامیابی اور قومی و اخلاقی فتح ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’استقامت، طاقتور فوجی کارروائی، اور ہمارے عظیم دوست و اتحادی صدر ٹرمپ کی غیر معمولی کوششوں کے نتیجے میں ہم اس فیصلہ کن موڑ پر پہنچے ہیں‘۔
اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر کا ان کی قیادت، شراکت داری، اور اسرائیل کی سلامتی و یرغمالیوں کی آزادی کے لیے غیر متزلزل عزم پر شکریہ ادا کیا۔
حماس نے تصدیق کی کہ اس نے جنگ کے خاتمے کے لیے ایک معاہدہ طے کر لیا ہے، جس میں اسرائیلی انخلا اور یرغمالیوں و قیدیوں کے تبادلے کی شقیں شامل ہیں۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہمارے عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، اور ہم اپنے عہد پر قائم رہیں گے، اپنے عوام کے قومی حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے جب تک آزادی، خودمختاری اور حقِ خودارادیت حاصل نہیں ہو جاتا‘۔
ٹرمپ نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ اس ہفتے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کر سکتے ہیں کیونکہ معاہدہ ’انتہائی قریب‘ ہے۔
ایک ڈرامائی لمحے میں اے ایف پی کے صحافیوں نے امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کو وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران مداخلت کرتے دیکھا، جب انہوں نے ٹرمپ کو مصر میں جاری مذاکرات کی پیش رفت کے بارے میں ایک فوری نوٹ دیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’میں ممکنہ طور پر ہفتے کے آخر میں، شاید اتوار کو وہاں جاؤں گا‘، انہوں نے مزید کہا کہ وہ ممکنہ طور پر مصر جانے کا رکھتے ہیں، لیکن جنگ زدہ غزہ کا دورہ کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کے منصوبے میں جنگ بندی، غزہ میں تمام یرغمالیوں کی رہائی، حماس کا غیر مسلح ہونا، اور اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا شامل ہے۔
ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف مذاکرات میں پہلے ہی پہنچ چکے ہیں۔
اسرائیلی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی ہفتے کو شروع ہونے کی توقع ہے۔ دریں اثنا، ٹرمپ نے فاکس نیوز کے پروگرام ’ہینٹی‘ میں بدھ کے روز کہا کہ غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کو ممکنہ طور پر پیر کو رہا کیا جائے گا۔
غزہ کے حکام کے مطابق اسرائیل کی فوجی کارروائی میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور غزہ کا بیشتر علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، 7 اکتوبر کو حماس کے حملے میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے تھے اور 251 کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا تھا، 48 یرغمالی تاحال حماس کی قید میں ہیں جن میں سے 20 یرغمالیوں کے زندہ ہونے کا گمان کیا جاتا ہے۔
Comments are closed.