دفتر یا ڈاکوؤں کا اڈہ؟ – افغان کمشنریٹ پشاور کی حقیقت
پشاور
شمشاد مانگٹ
پشاور کے افغان کمشنریٹ ظلم ، ناانصافی اور کرپشن کی ایک ایسی تصویر ہے جو ہر باشعور انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔ یہاں کے مظلوم ملازمین تنخواہوں سے محروم ہو کر بھوک، افلاس اور بے بسی کی چکی میں پس رہے ہیں۔
گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں، بچوں کی فیسیں ادا نہیں ہو رہیں، اور راشن کی خالی بوریاں ہر دیوار سے ٹکرا کر چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ان گھروں میں بھوک کا راج ہے۔ فاقہ کشی اب معمول بن چکی ہے ، مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کی فریادیں سننے والا کوئی نہیں۔
دوسری جانب انہی ملازمین کے افسران ڈی ایچ اے کے عالیشان بنگلوں میں بیٹھے آرام فرما رہے ہیں، مہنگی گاڑیوں میں سیر کرتے ہیں اور دنیا و مافیہا سے بے خبر عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
چیف فنانشل آفیسر عطا اللہ، جن پر نہ صرف مالی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات ہیں بلکہ وفاقی محتسب کی جانب سے ہراسانی کے جرم میں نوکری سے برطرف اور جرمانہ بھی کیا گیا، آج بھی اسی کرسی پر براجمان ہیں، گویا قانون بھی ان کے آگے بے بس ہے۔
کمشنر شکیل صافی، جو واپڈا سے “امپورٹ” ہو کر آئے، اب ڈی ایچ اے میں ایک کنال سے زائد کے محل کے مالک ہیں۔ یہ وہی شخص ہیں جو دفتر میں پانی کا گلاس خرچ کرنے سے بھی ہچکچاتے تھے، مگر آج ان کی دولت کی چمک دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ محلات، یہ گاڑیاں، اور افسران کی پرتعیش زندگی ملازمین کی خون پسینے کی کمائی سے بنائی گئی ہے۔ کئی غریب ملازمین کو غیر قانونی طور پر نوکری سے نکالا گیا اور ان کی تنخواہیں افسران نے آپس میں بانٹ لیں ۔
یہ دفتر اب عوامی خدمت کا مرکز نہیں بلکہ کرپشن، ناانصافی اور طاقت کے ناجائز استعمال کا گڑھ بن چکا ہے۔ عوام اور متاثرہ ملازمین پوچھتے ہیں: وہ حکومت کہاں ہے جو احتساب کے نعرے لگاتی تھی؟ وہ قانون کہاں ہے جو سب کے لیے برابر تھا؟ اور وہ انصاف کہاں ہے جو صرف طاقتوروں کی دہلیز تک کیوں محدود ہے؟ ۔
Comments are closed.