افغانستان بھارت کی پراکسی بن چکا، اب احتجاجی مراسلے نہیں ہوں گے: وزیر دفاع خواجہ آصف

افغانستان بھارت کی پراکسی بن چکا، اب احتجاجی مراسلے نہیں ہوں گے: وزیر دفاع خواجہ آصف

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغانستان کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی مسلسل کوششوں اور قربانیوں کے باوجود کابل حکومت کا ردعمل منفی رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب افغانستان بھارت کی پراکسی بن چکا ہے اور پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ مسلط کی جا چکی ہے۔

خواجہ آصف نے واضح کیا کہ اب پاکستان کی جانب سے نہ تو احتجاجی مراسلے بھیجے جائیں گے، نہ امن کی اپیلیں ہوں گی، اور نہ ہی کابل میں کوئی وفد جائے گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ “دہشت گردی کا منبع جہاں بھی ہوگا، اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔”

خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری تفصیلی بیان میں افغانستان میں طالبان کے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کا ذکر کیا، جن میں وزیر خارجہ کے 4 دورے کابل، وزیر دفاع اور ڈی جی آئی ایس آئی کے 2 دورے، نمائندہ خصوصی کے 5 دورے، سیکریٹری خارجہ کے 5 وزٹ اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کا 1 دورہ شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے 8 اجلاس، بارڈر فلیگ میٹنگز 225 بار، 836 احتجاجی مراسلے اور 13 مرتبہ ڈیمارش کی گئی۔ وزیر دفاع کے مطابق 2021 سے اب تک 3,844 افراد شہید ہوئے جن میں سویلین، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں، اور 10,347 دہشت گرد حملے ہوئے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ یہ دہشت گردی کی جنگ بھارت، افغانستان اور کالعدم ٹی ٹی پی نے مل کر پاکستان پر مسلط کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کابل میں بیٹھے وہی لوگ جو کل تک پاکستان کی سرزمین پر پناہ لیے ہوئے تھے، آج بھارت کے اشاروں پر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔

وزیر دفاع نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اب افغانستان کے ساتھ “ماضی جیسے تعلقات” کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ “پاکستان کی زمین پر بیٹھے تمام افغانیوں کو اپنے وطن واپس جانا ہوگا۔ اب ان کی اپنی حکومت موجود ہے۔” انہوں نے 5 دہائیوں پر محیط زبردستی کی مہمان نوازی کے خاتمے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ “خوددار قومیں بیگانی سر زمین اور وسائل پر نہیں پلتی ہیں۔”

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی کے باوجود عارضی جنگ بندی میں دوحہ مذاکرات کے اختتام تک توسیع کی گئی ہے۔ 15 اکتوبر کو پاکستان نے افغان طالبان کی سیز فائر کی درخواست پر 48 گھنٹے کی عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ اب یہ سیز فائر 18 اکتوبر سے شروع ہونے والے اعلیٰ سطح مذاکرات تک برقرار رہے گی۔

خواجہ آصف کا سخت لہجہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اب تحمل اور سفارتی نرمی کی بجائے عملی اقدامات کی طرف بڑھنے کا اشارہ دے رہا ہے۔ ان بیانات کے اثرات نہ صرف پاک-افغان تعلقات پر پڑ سکتے ہیں بلکہ علاقائی سیکیورٹی اور افغان مہاجرین سے متعلق پالیسیوں میں بھی واضح تبدیلی متوقع ہے۔

Comments are closed.