افغانستان نے خود ملا ضعیف کو امریکیوں کے حوالے کیا، جنرل (ر) احسان الحق کا بیان

افغانستان نے خود ملا ضعیف کو امریکیوں کے حوالے کیا، جنرل (ر) احسان الحق کا بیان

اسلام آباد

پاکستان کے سابق انٹیلی جنس چیف نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے سابق سفیر عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے پاکستان نے نہیں بلکہ ’ان کے اپنے ہم وطنوں‘ نے کیا تھا۔

یہ دعویٰ اس وقت سامنے آیا ہے، جب کابل میں دوبارہ طاقت حاصل کرنے والے طالبان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، یہ بیان جنرل (ریٹائرڈ) احسان الحق نے دیا، جنہوں نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کی کمان سنبھالی تھی۔

کئی سال تک یہ تاثر رہا کہ عبدالسلام ضعیف جو نائن الیون حملوں کے وقت اسلام آباد میں افغان طالبان حکومت کے سفیر تھے، انہیں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکا کے حوالے کیا گیا تھا۔

اپنی کتاب ’مائی لائف ودھ طالبان‘ میں سابق سفیر نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پشاور میں امریکی تحویل میں دیا گیا، اور اس بیان کو آج تک کسی پاکستانی اہلکار نے عوامی طور پر چیلنج نہیں کیا تھا۔

تاہم، حال ہی میں ایک سیمینار میں عبدالسلام ضعیف کے دعوے کے بارے میں پوچھے جانے پر سابق فور اسٹار جنرل نے بتایا کہ کس طرح طالبان حکومت کو ’غیر تسلیم شدہ‘ قرار دیا گیا، اور پاکستانی حکام نے کئی ماہ تک عبدالسلام ضعیف کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسلام آباد چھوڑ دیں تاکہ انہیں بعد میں پیش آنے والی صورتحال سے بچایا جا سکے۔

عبدالسلام ضعیف نے گوانتانامو بے کے بدنامِ زمانہ امریکی حراستی مرکز میں تقریباً 4 سال قید گزاری اور 2005 میں رہا ہوئے تھے۔

جب اس حوالے سے عبدالسلام ضعیف سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جنرل احسان الحق کے بیان کو مسترد کر دیا۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر سیمینار اسلام آباد میں قائم خیبر مارگلہ فاؤنڈیشن نے منعقد کیا تھا، اس سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے جنرل (ر) احسان الحق نے یاد کیا کہ عبدالسلام ضعیف کو کہا گیا تھا کہ وہ اسلام آباد چھوڑ دیں، انہیں بتایا گیا تھا کہ اگر وہ نہیں مانے تو انہیں طورخم لے جا کر ملک بدر کر دیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب انہیں ہیلی کاپٹر میں لے جایا جا رہا تھا تو ہمارے لوگوں نے ایک بار پھر کہا کہ اگر آپ رضامندی ظاہر کریں تو ہم آپ کو کسی اور جگہ اتار دیتے ہیں، سرحد پر ملک بدری کے لیے نہیں لے جاتے۔

سابق آئی ایس آئی چیف نے کہا کہ آخرکار انہیں طورخم سرحد پر لے جایا گیا اور کہا گیا کہ وہ سرحد پار کر جائیں، پاکستان نے انہیں امریکا کے حوالے نہیں کیا، جب وہ سرحد پار گئے تو افغان حکام نے انہیں گرفتار کر کے امریکیوں کے حوالے کر دیا، جس کے بعد انہیں گوانتانامو بھیج دیا گیا، پاکستان نے یہ کام نہیں کیا۔

اگرچہ پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا اور عبدالسلام ضعیف کو کابل کا سفیر مانا تھا، مگر نائن الیون کے بعد افغان طالبان کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔

سابق انٹیلی جنس چیف ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے، انہوں نے بتایا کہ تعلقات منقطع ہونے کے باوجود عبدالسلام ضعیف اسلام آباد میں سرکاری سفارتی رہائش گاہ میں رہائش پذیر رہے، جہاں غیر ملکی میڈیا کے نمائندے بھی اکثر موجود رہتے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب اکتوبر 2001 میں امریکا نے کابل پر بمباری شروع کی تو طالبان رہنما افغانستان چھوڑنے لگے، ان کا ارادہ پاکستان میں ’جلا وطن حکومت‘ بنانے کا تھا، جس کا سربراہ ضعیف کو بنایا جانا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’فیصلہ کیا گیا کہ ملا ضعیف سے کہا جائے کہ وہ پاکستان چھوڑ دیں، اُس وقت پاکستان میں 50 لاکھ افغان مقیم تھے، لیکن ہم نے کسی ایک افغان کو بھی امریکا کے حوالے نہیں کیا‘۔

جنرل (ر) احسان الحق نے بتایا کہ پاکستانی حکام نے عبدالسلام ضعیف کو مشورہ دیا کہ وہ کسی پناہ گزین کیمپ یا کسی عام جگہ منتقل ہو جائیں اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اسے بند کر دیں، یہ پیغام انہیں وزارتِ خارجہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے ذریعے پہنچایا گیا تھا، تاہم، سابق آئی ایس آئی سربراہ کے مطابق اُس وقت کے افغان سفیر نے اسلام آباد چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ کئی ماہ تک انہیں کہتے رہے کہ اسلام آباد سے منتقل ہو جائیں، دیگر ممالک بھی احتجاج کرتے تھے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، پاکستان نے افغان حکومت کو تسلیم کرنا ختم کر دیا ہے، پھر بھی وہ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں۔

Comments are closed.