امریکہ کا 21 نکاتی مجوزہ امن منصوبہ : غزہ میں جنگ بندی، تعمیر نو اور سیاسی حل کی جانب پیش قدمی

امریکہ کا 21 نکاتی مجوزہ امن منصوبہ : غزہ میں جنگ بندی، تعمیر نو اور سیاسی حل کی جانب پیش قدمی

واشنگٹن

واشنگٹن نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے ایک 21 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد نہ صرف جنگ بندی بلکہ علاقے کی سیاسی، سماجی اور معاشی بحالی کو ممکن بنانا ہے۔ منصوبے کے تحت غزہ کو ایک غیر انتہا پسند، دہشت گردی سے پاک علاقہ بنایا جائے گا جو اپنے ہمسایوں کے لیے خطرہ نہ ہو گا۔

غزہ کو اس کے عوام کی فلاح کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔ اگر اسرائیل اور حماس اس تجویز پر اتفاق کر لیں تو اسرائیلی فوج فوری طور پر تمام فوجی کارروائیاں بند کر دے گی اور بتدریج غزہ سے انخلا شروع کرے گی۔

معاہدے کی منظوری کے 48 گھنٹوں کے اندر تمام یرغمالی، خواہ زندہ ہوں یا شہید، واپس کر دیے جائیں گے۔ یرغمالیوں کی واپسی کے بعد اسرائیل عمر قید کاٹنے والے کئی سو فلسطینی قیدی، جنگ کے آغاز میں گرفتار کیے گئے ایک ہزار سے زائد غزہ کے شہری اور کئی سو فلسطینیوں کی میتیں واپس کرے گا۔

معاہدے کے تحت وہ حماس اراکین جو پرامن بقائے باہمی پر آمادہ ہوں انہیں معافی دی جائے گی جبکہ جو تنظیم چھوڑنا چاہیں انہیں دوسرے ممالک جانے کے لیے محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ معاہدے کے بعد فوری طور پر غزہ میں انسانی امداد کا بہاؤ شروع ہو گا جس کی سطح جنوری 2025 کے یرغمالی معاہدے سے کم نہیں ہو گی یعنی روزانہ کم از کم 600 ٹرک داخل ہوں گے۔

اس کے ساتھ بنیادی ڈھانچے کی بحالی، ملبہ ہٹانے اور دیگر ضروری سامان کی فراہمی ممکن ہو گی۔ امداد کی تقسیم اقوام متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر غیر جانبدار بین الاقوامی ادارے کریں گے جن کا تعلق نہ اسرائیل سے ہو گا نہ حماس سے۔ غزہ میں ایک عارضی عبوری حکومت قائم کی جائے گی جس میں فلسطینی ٹیکنوکریٹس شامل ہوں گے جو عوامی خدمات فراہم کریں گے اور یہ کمیٹی ایک نئے بین الاقوامی ادارے کے زیر نگرانی کام کرے گی جو امریکہ، عرب اور یورپی اتحادیوں کے تعاون سے تشکیل دیا جائے گا۔

یہ ادارہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے فنڈز کے استعمال اور منصوبہ بندی کا فریم ورک طے کرے گا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی اصلاحات مکمل نہیں کر لیتی۔ ایک نیا اقتصادی منصوبہ تشکیل دیا جائے گا جس کے تحت غزہ کی تعمیر نو جدید مشرق وسطیٰ کے شہروں کے طرز پر کی جائے گی اور سرمایہ کاری کے فروغ و روزگار کے مواقع کے لیے موجودہ منصوبوں کا جائزہ لیا جائے گا۔

ایک خصوصی اقتصادی زون قائم کیا جائے گا جس میں کم شرح ڈیوٹیز اور تجارتی سہولیات فراہم کی جائیں گی جن پر شریک ممالک باہمی مذاکرات کریں گے۔ کسی کو غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن جو جانا چاہیں گے انہیں واپسی کی اجازت دی جائے گی اور مقامی آبادی کو وہیں بہتر مستقبل کی تعمیر کی ترغیب دی جائے گی۔

حماس کا غزہ کی حکومت میں کوئی کردار نہیں ہو گا اور تمام حملہ آور ڈھانچے بشمول سرنگیں ختم کی جائیں گی جبکہ نئے رہنما پرامن بقائے باہمی کے وعدے کریں گے۔ علاقائی شراکت دار اس امر کی ضمانت دیں گے کہ حماس اور دیگر گروہ معاہدے پر عمل کریں اور غزہ نہ اسرائیل کے لیے خطرہ بنے گا نہ اپنے عوام کے لیے۔

امریکہ عرب اور دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر ایک عبوری بین الاقوامی استحکام فورس تشکیل دے گا جو غزہ میں سیکیورٹی کی نگرانی کرے گی اور ایک مقامی فلسطینی پولیس فورس تیار کرے گی۔ اسرائیل نہ غزہ پر قبضہ کرے گا اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ ضم کرے گا اور آئی ڈی ایف بتدریج ان علاقوں کو مقامی سیکیورٹی فورسز کے حوالے کرے گی۔

اگر حماس اس منصوبے کو مسترد کرے یا تاخیر کرے تو یہ نکات ان علاقوں پر نافذ کیے جائیں گے جو دہشت گردی سے پاک تصور ہوں گے اور جہاں آئی ڈی ایف بین الاقوامی فورس کے ساتھ مرحلہ وار انخلا کرے گی۔ اسرائیل مستقبل میں قطر پر حملہ نہیں کرے گا اور امریکہ و عالمی برادری دوحہ کے ثالثی کردار کو تسلیم کرے گی۔

انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بین المذاہب مکالمے پر مشتمل منصوبہ بنایا جائے گا تاکہ دونوں جانب سوچ اور بیانیہ میں تبدیلی ممکن بنائی جا سکے۔ جب غزہ کی تعمیر نو میں پیشرفت ہو گی اور فلسطینی اتھارٹی اصلاحات مکمل کرے گی تو فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک قابلِ اعتبار راستہ فراہم کیا جائے گا۔

آخر میں امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک بامقصد سیاسی مکالمہ شروع کرے گا تاکہ پرامن بقائے باہمی کے سیاسی افق پر اتفاق ممکن ہو سکے۔

Comments are closed.