سی ڈی اے کی ناکام آکشن : اربوں روپے کا نقصان اور ناکام پالیسیاں

سی ڈی اے کی ناکام آکشن : اربوں روپے کا نقصان اور ناکام پالیسیاں

سردار طاہر محمود

سی ڈی اے (کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی) کی حالیہ نیلامی، جو کہ اسلام آباد کی تاریخ کی بڑی آکشنز میں شمار ہوتی تھی، ناکامی کا شکار ہو گئی۔ اس نیلامی میں کل 125 ارب روپے سے زائد مالیت کی 46 کمرشل پراپرٹیز (پلاٹس اور دکانیں) رکھی گئی تھیں ۔ لیکن چیئرمین سی ڈی اے کی ناقص منصوبہ بندی، ضد، ہٹ دھرمی اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر نافذ کی گئی پالیسیاں اس نیلامی کی ناکامی کا باعث بنیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 125 ارب روپے کی توقعات کے برعکس صرف 19 ارب روپے کی پراپرٹیز فروخت ہو سکیں۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ جن محدود پراپرٹیز کی فروخت ہوئی، وہ بھی اپنی اصل مارکیٹ ویلیو سے تقریباً 5 سے 7 ارب روپے کم قیمت پر ہوئیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال جو پلاٹ نمبر 13، 31 لاکھ روپے فی مربع گز میں فروخت ہوا، وہ اب محض 27 لاکھ روپے فی مربع گز میں نیلام کیا گیا۔ اسی طرح پلاٹ نمبر 12، جس کی مارکیٹ ویلیو 30 سے 31 لاکھ روپے فی مربع گز تھی، محض 23 لاکھ روپے فی مربع گز میں فروخت ہوا جو کہ ریزرو پرائس سے صرف ایک فیصد اوپر تھا۔ واضح رہے کہ یہ نقصان خالصتاً سی ڈی اے کی انتظامی ناکامی، ناقص پالیسیوں اور ناقص حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔

مزید یہ کہ سی ڈی اے کی حالیہ پالیسیوں کی وجہ سے متعدد مسائل نے جنم لیا ہے جن میں خاص طور پر ٹرانسفر فیسز میں ہوشربا اضافہ نمایاں ہے۔ ایک لاکھ پچیس ہزار روپے سے بڑھا کر پانچ سو گز کے رہائشی پلاٹ پر تیس سے چالیس لاکھ روپے تک فیس عائد کردی گئی ہے جو کہ پورے ملک میں اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے۔ اس کے علاوہ بلڈرز کے نقشہ جات کی منظوری میں غیر معمولی تاخیر اور مسائل ہیں۔

نیلام شدہ پلاٹوں کے لے آؤٹ پلان اور نقشے سالوں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ نو ڈیمانڈ سرٹیفکیٹس اور انڈی سیز رشوت کے بغیر جاری کروانا ناممکن ہو چکا ہے۔ سی ڈی اے لینڈ اینڈ ری ہیبلیٹیشن میں اوورسیز پاکستانیوں اور مقامی متاثرین کے پلاٹس، جو آٹھ سے دس مرتبہ ٹرانسفر ہو چکے ہیں اور تیس سے چالیس سال پرانے ہیں، رشوت کی وجہ سے کینسل کیے جاتے ہیں جس کے باعث متاثرین عدالتوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔

عوام کو روزانہ کی بنیاد پر سی ڈی اے دفاتر میں خوار کیا جا رہا ہے جبکہ چیئرمین سی ڈی اے کی دو عہدوں پر بیک وقت موجودگی (چیف کمشنر اور چیئرمین سی ڈی اے) کے باعث وہ اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے سے قاصر ہیں ۔

ان کی زیادہ تر توجہ غیر ملکی سفیروں اور وفود سے ملاقاتوں یا ڈیویلپمنٹ کے کاموں پر مرکوز رہتی ہے جس سے عوامی مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت مکمل طور پر مفقود ہے۔

اس نیلامی کے دوران اسلام آباد کی حقیقی رئیل اسٹیٹ کمیونٹی، بشمول بلڈرز، ڈیویلپرز اور رئیلٹرز نے احتجاجاً بائیکاٹ کیا۔ اس کے باوجود سی ڈی اے انتظامیہ نے جعلی (ڈمی) بڈرز بٹھا کر قیمتوں کو مصنوعی طور پر گرا کر لوٹ سیل کا ماحول پیدا کیا۔ چیئرمین سی ڈی اے نے مختلف اخبارات اور میڈیا چینلز پر کروڑوں روپے کے اشتہارات کے باوجود حقیقی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے میں مکمل ناکامی کا سامنا کیا۔

قابل افسوس پہلو یہ بھی ہے کہ 125 ارب روپے کی پراپرٹیز میں سے صرف 19 ارب روپے کی سیلز کو میڈیا پر کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسا تاثر دیا گیا جیسے محض 25 ارب کا سامان تھا جس میں 19 ارب کی فروخت ہوئی، حالانکہ حقیقی صورتحال بالکل مختلف ہے۔

اس ناکامی کی ذمہ داری مکمل طور پر چیئرمین سی ڈی اے پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو مسلسل نظرانداز کیا۔ اس صورتحال کے تدارک کے لیے ہم چیئرمین سی ڈی اے کو کھلا چیلنج دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کریں۔ وزیر داخلہ صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ اس مسئلے میں مداخلت کرتے ہوئے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کریں اور دو ہفتے بعد دوبارہ شفاف نیلامی کا انعقاد کریں۔ ہم ضمانت دیتے ہیں کہ شفاف اور منصفانہ پالیسیوں کی صورت میں ہم کم از کم 100 ارب روپے کی سیل یقینی بنا کر دیں گے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ذمہ دار ادارے اس معاملے کا فوری نوٹس لیں اور اسلام آباد کی رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کو مزید نقصان سے بچایا جائے۔

Comments are closed.