قرآن اٹھا کر رحم مانگنے والی بیٹی کو بھی نہ بخشا گیا

قرآن اٹھا کر رحم مانگنے والی بیٹی کو بھی نہ بخشا گیا

تحریر : لیاقت علی

بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ صرف قتل نہیں بلکہ انسانیت کی تذلیل، اسلامی تعلیمات کی توہین اور معاشرتی ضمیر کی موت کا بدترین منظرنامہ ہے۔ احسان اللہ اور بانو بی بی، دو نوجوان جنہوں نے اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے نکاح کیا، ایک دوسرے کو پسند کیا اور عزت دار طریقے سے زندگی شروع کرنے کی کوشش کی۔ مگر ہماری سوسائٹی نے اس نکاح کو جرم بنا دیا، محبت کو گناہ قرار دے دیا اور عزت کو بے عزتی میں بدل دیا۔

اس ظلم کی انتہا دیکھیں کہ بانو بی بی نے ہاتھ میں قرآن مجید اٹھایا، دہائیاں دیتی رہی، فریاد کرتی رہی کہ ہم نے کوئی غلطی نہیں کی، ہم نے نکاح کیا ہے، اللہ کے حکم پر عمل کیا ہے۔ لیکن اُس کے اپنوں نے، اُسی معاشرے نے جسے اسلامی معاشرہ کہا جاتا ہے، اُسے بے دردی سے قتل کر دیا۔ قرآن کے مقدس اوراق ہاتھوں میں ہونے کے باوجود اُن درندوں نے رحم نہ کیا۔ اُن کے دل نہ کانپے، آنکھیں نہ نم ہوئیں، اور نہ ہی ایمان جاگا۔ اُس بیٹی کی فریادیں، چیخیں، آنکھوں میں موجود خوف اور امید کا ملا جلا منظر آج بھی دل کو چیر دیتا ہے۔

یہ قتل ایک فرد کا نہیں، بلکہ انسانیت کا قتل تھا۔ یہ قتل اس تصور کا قتل تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جہاں شریعت نافذ ہے، جہاں نکاح کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر ایک لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر لے، تو کیا یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اسے مار دیا جائے؟ کیا یہی ہے ہمارا اسلامی اور اخلاقی معیار؟ کیا یہی تعلیمات ہیں اُس دین کی جو محبت، رحمت اور ہمدردی کا درس دیتا ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ شادی اُس سے کرو جس سے تمہیں محبت ہو۔ تو پھر ہم کون ہوتے ہیں روکنے والے؟

یہ واقعہ صرف بلوچستان میں پیش نہیں آیا، بلکہ ہمارے اندر چھپے ہوئے اس ظلم، تنگ نظری اور قبائلی انا کی نمائندگی کرتا ہے جو آج بھی شریعت سے بالاتر ہو کر فیصلے کرتا ہے۔ یہ جرگہ سسٹم، جو قانون کو جوتے کی نوک پر رکھ کر فیصلے کرتا ہے، یہ غیرت کے نام پر قتل، یہ خود ساختہ رسومات، یہ سب اُسی معاشرتی زہر کا نتیجہ ہیں جسے ہم نے اپنی مرضی کا دین بنا لیا ہے۔

حکومتِ پاکستان کو اس واقعے کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ ان قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا صرف ضروری نہیں بلکہ فرض ہے۔ ریاست اگر اپنی شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی، تو وہ ناکام ریاست کہلائے گی۔ یہ صرف ایک عدالتی کیس نہیں بلکہ ایک اخلاقی و دینی امتحان ہے۔ اگر آج ان قاتلوں کو سزا نہ دی گئی، تو کل کوئی اور قرآن اٹھائے رحم کی بھیک مانگتا رہے گا اور ہم پھر خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔

اسلام کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی کا انصاف کرے۔ کسی لڑکی یا لڑکے کو صرف اس بنیاد پر قتل کرنا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے نکاح کیا، سراسر ظلم ہے، جہالت ہے، گناہِ کبیرہ ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کس راستے پر جا رہے ہیں؟ اگر ہم نے اپنی سوچ نہ بدلی، اپنے رسم و رواج کو دین پر فوقیت دی، تو ایسے واقعات بڑھتے جائیں گے۔

کیا بانو بی بی کی آخری چیخ ہمیں جگانے کے لیے کافی نہیں؟ کیا قرآن پاک اُس کے ہاتھوں میں بے توقیر نہیں ہوا؟ کیا وہ ویڈیو دیکھنے کے بعد بھی ہمارے ضمیر زندہ نہیں ہوتے؟ کیا ہم صرف سوشل میڈیا پر افسوس کرنے کے بعد بھول جائیں گے کہ ایک بیٹی نے اپنی جان دیتے وقت بھی قرآن کو سینے سے لگا رکھا تھا؟ کیا ہم اتنے مردہ دل ہو چکے ہیں؟

حکومت سے مطالبہ ہے کہ ان درندوں کو فوراً گرفتار کر کے عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنا بانو بی بی اور احسان اللہ جیسے ہر مظلوم کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ اور یہ بھی واضح کر دینا چاہیے کہ اسلام کبھی ایسے جرگوں، غیرت کے نام پر قتل، یا خود ساختہ انصاف کو قبول نہیں کرتا۔ دینِ اسلام عدل و انصاف کا دین ہے، نہ کہ انتقام اور انا کا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں نکاح کے حق کو عزت دی جائے۔ لڑکی اگر اپنی پسند سے شادی کرتی ہے تو یہ اس کا شرعی حق ہے۔ یہ عمل نہ تو بے حیائی ہے، نہ ہی جرم، بلکہ شریعت کے عین مطابق ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو تحفظ دینا ہو گا، تعلیم دینا ہو گی، اور ان کے فیصلوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔

اگر آج حکومت خاموش رہی، تو کل یہ ظلم ہر گھر کی دہلیز پر آ جائے گا۔ اگر قرآن اٹھانے والی بیٹی کو بھی ہم نہ بچا سکے، تو پھر ہمیں یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ ہم اسلامی ریاست میں رہتے ہیں۔ ہمیں ثابت کرنا ہو گا کہ ہم واقعی ایک مسلمان ریاست کے باسی ہیں، جہاں عدل ہو، رحم ہو، اور انسان کی عزت محفوظ ہو۔

Comments are closed.